منو بھائی ، رسا چغتائی اور ساقی فاروقی کی یاد میں تعزیتی ادبی ریفرنس،صدارت پروفیسر فتح محمد ملک نے کی، مہمان خصوصی پروفیسر جلیل عالی تھے

بدھ 14 فروری 2018 23:50

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 فروری2018ء) ادارہ فروغ قومی زبان کے زیر انتظام علم و ادب و صحافت اور جہان اردو کی نامور شخصیات منو بھائی، رسا چغتائی اور ساقی فاروقی کی یاد میں ایک ادبی تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا ۔ جس کی صدارت پروفیسر فتح محمد ملک نے کی جبکہ مہمان خصوصی پروفیسر جلیل عالی تھے دیگر اظہار خیال کرنے والوں میں فریدہ حفیظ ،علی محمد فرشی، حارث خلیق اور ڈاکٹر روش ندیم شامل تھے۔

مقررین نے کہا کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بے باک دبستان ادب کو بہت تقویت دی ۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے منو بھائی کے ساتھ اپنی یادوں کو دہراتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے قلم پر پختہ یقین رکھنے والے لکھاری تھے۔ انہیں کوئی خوف یا خطرہ اپنے نظریے سے ہٹا نہیں سکا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ وہ زیر ترتیب اپنی سر گزشت میں منو بھائی کے ساتھ بیتے دنوں کا تفصیلی ذکر کریں گے۔

پروفیسر فتح محمد ملک نے مزید کہا کہ انہیں فخر ہے کہ وہ منو بھائی کے رومیٹ دوست اور ساتھی رہے۔انہوں نے ساقی فاروقی کے ساتھ اپنی طویل خط و کتابت کا ذکر بھی کیا۔افتخار عارف نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہانِ دانش کی یہ تینوں شخصیات مشعل راہ ہیں۔منو بھائی کے جانے سے ادب صحافت اور محنت کش تحریک کا ایک باب ختم ہو گیا ہے۔انہوں نے رسا چغتائی کے انتقال سے غزل کو پہنچنے والے نقصان کا ذکر کیا ۔

افتخار عارف نے کہا کہ رسا چغتائی کے علم میں تنقیدی بصیرت تھی۔افتخار عارف نے لندن میں ساقی فاروقی کے ساتھ گزارے بے شمار دنوں کو یاد کیا اور کہا کہ وہ مشکل انسان تھے لیکن ان کی شاعری ان ہی کا کمال تھا۔ انہوں نے خالی بورے میں زخمی بلا ،مستانہ ہیجڑا جیسی کئی نظموں کا حوالہ دیا۔افتخار عارف نے کہا کہ ساقی فاروقی شاعری کے لیے ایسے موضوعات اٹھا لیتے تھے جن کے بارے میں کوئی دوسرا سوچ نہیں سکتا تھا کہ ان موضوعات پر بھی شاعری کی جا سکتی ہے۔

پروفیسر جلیل عالی نے کہا کہ منو بھائی نے کھبی معذرت خانہ رویہ نہیں اپنایا ۔انہوں نے کہا کہ منو بھائی کہتے تھے کہ پاکستان میرا عشق ہے۔جلیل عالی نے کہا کہ ساقی فاروقی کے بعد ہمیں کوئی نظر نہیں آتا جو نظم میں انفرادیت رکھتا ہو۔انہوں نے کہا کہ ساقی فاروقی اردو ادب کے سبزہ بیگانہ تھے۔انہوں نے کہا کہ رسا چغتائی نے غزل کو زمین سے ایسے جوڑا جیسے وہ کسی گائوں میں رہتے ہوں ۔

علی محمد فرشی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رسا چغتائی ،ساقی فاروقی اور منو بھائی سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور میں ان ہی کی وجہ سے آج اس مقام پر ہوں۔ انہوں نے کہا منو بھائی نے سونا چاندی جسیے کرداروں کو ایسی شناخت دی کہ لوگ ان کے اصل نام بھول چکے ہیں۔ علی محمد فرشی نے منو بھائی ، رسا چغتائی اور ساقی فاروقی کی چیدہ چیدہ نظمیں پڑھ کر بھی سنائیں۔

حارث خلیق نے کہا کہ منو بھائی نے ڈرامہ سونا چاندی لکھ کر پاکستان کے کلچر کو انوکھے انداز سے ابھارا ۔ منو بھائی نے ادب و صحافت کے ذریعے ایک ناقابل فراموش خدمات انجام دی۔حارث خلیق نے کہا کہ رساچغتائی میرے والد صاحب کے دوست تھے۔ میرے والد صاحب نے میرے لیے جو ورثہ چھوڑا وہ یہی احباب ہیں اب یہ ورثہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔ فریدہ حفیظ نے کہا کہ بانو قدسیہ کے انتقال پر منو بھائی نے اپنے کالم میں لکھا تھا ’’ کہ ہمارے درمیان سے جو کوئی نکل کر جاتا ہے اپنی جگہ خالی چھوڑ جاتا ہے ‘‘۔

فریدہ حفیظ نے کہا کہ یہی صورت حال منو بھائی کے جانے کے بعد ہمیں درپیش ہے۔ ڈاکٹر روش ندیم نے اپنے مقالے میں کہا کہ سماجی پابندیوں کو دور کرنا اور اظہاربیان میں بے باکی انہی کا خاصہ ہے۔ منو بھائی کا جو قد ہے وہ ان ہی کو جچتا ہے۔ ڈاکٹر روش ندیم نے منو بھائی، ساقی فاروقی اور رسا چغتائی کی نظموں کا علمی تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحریروں میں سماج کی نا انصافیوں اور خوف کو بڑے انصاف اور بے خوفی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔تقریب کے اختتام پر افتخار عارف نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ حاضرین کے نزدیک یہ تقریب اسلام آباد کی ادبی تقریبوں میں سے ایک یاد گار تقریب تھی۔