انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کیس کی سماعت،عدالت جائزہ لے گی کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کو تحفظ حاصل ہے یا نہیں،جب بنیاد ختم ہوجائے تو پورا ڈھانچہ گر جاتا ہے،اگر پارٹی صدارت ختم کردی تو جن کو ٹکٹ دیے گئے انکا کیا بنے گا ،سپریم کورٹ

بدھ 14 فروری 2018 23:10

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 فروری2018ء) سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کے حوالے سے کیس کی سماعت آج جمعرات کی صبح تک ملتوی کرتے ہوئے کہاہے کہ کیس کی سماعت کے دورا ن اس امرکاجائزہ لے گی کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کو تحفظ حاصل ہے یا نہیں،جب بنیاد ختم ہوجائے تو پورا ڈھانچہ گر جاتا ہے،اگر پارٹی صدارت ختم کردی تو جن کو ٹکٹ دیے گئے انکا کیا بنے گا ،بدھ کویہاں چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ، اس موقع پرمسلم لیگ ن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 17 اور 19 نے ہر سیاسی جماعت کے اراکین کو پارٹی سربراہ منتخب کرنے کا مکمل حق دے رکھا ہے، جبکہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پارلیمنٹ نے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے آگے سب کمیٹی تشکیل دی جس نے اپنی تجاویز دینے کے بعد25دسمبر2016ء کوقانون کا مسودہ تیار کیا،جس پرتمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں ، بعدازاں اسی ایکٹ پرسب کمیٹی میں بحث ہوئی تھی ، جسٹس اعجاز الاحسن نے ان سے استفسار کیاکہ کیاشق 203 پرکمیٹی میں بحث ہوئی تھی ، جس پرسلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ کمیٹی میں تمام جماعتوں کے اراکین شامل تھے اور اس قانون سازی میں کسی طرح کی کوئی بدنیتی شامل نہیں تھی چیف جسٹس نے ان سے استفسارکیا کہ کیامتفقہ طورپرتیار کیا گیا کوئی قانون آئین سے متصادم نہیں ہوسکتا ، کیونکہ قانون آئین سے متصادم ہونے پرکالعدم بھی ہوسکتاہے ،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قانون پر تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں اوران میںکوئی اختلاف نہیں تھا۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ اگر کوئی چوری کرتے پکڑا جائے توکیا وہ پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے کیا پارٹی سربراہ کے لیے کوئی اخلاقیات نہیں ہیں، کیونکہ پارٹی سربراہ پر بہت ذمہ داری عائد ہوتی ہے، پارلیمانی سیاست میں تو پارٹی سربراہ کا کردار نہایت اہم ہے، پارٹی سربراہ برا ہ راست گورننس پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی اپنے کام کا طریقہ کار خود اختیار کرتی ہے، پارلیمانی کمیٹی کے اراکین پارٹی سربراہ یا پارٹی کے آئین کے پابند نہیں ہوتے، آئین میں نااہل شخص کے حوالے سے قانون موجود ہے، پارلیمانی پارٹی کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کی پابند نہیں ہوتی، اس طرح سیاسی جماعت کا سربراہ پارلیمانی پارٹی کے ممبر کو ہٹا نہیں سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سربراہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارش کا پابند نہیں ہوتا، اصل فیصلہ تو سربراہ نے ہی کرنا ہوتا ہے،،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی سیاسی جماعت کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت سربراہ کے گرد گھومتی ہے ،سیاسی جماعت کا سربراہ پارلیمنٹرینز کو کنٹرول کرتا ہے، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پارٹی سربراہ کسی رکن کو براہ راست نااہل نہیں کرسکتا، بلکہ وہ معاملہ الیکشن کمیشن کوبھیجتاہے جہاںالیکشن کمیشن نے میرٹ پرنااہلی کے معاملے کا جائزہ لینا ہوتا ہے، الیکشن کمیشن میں بہت ساری سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، لیکن ہر سیاسی جماعت پارلیمنٹ کا حصہ نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پارٹی سربراہ کا حکومت سازی میں کردار ہے کہ نہیں ہم نے الیکشن کمیشن سے ریکارڈ منگوالیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی ٹکٹ کون جاری کرتا ہے، ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ سینٹ الیکشن میں ٹکٹ کس نے جاری کئے ہیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سیاسی جماعت کا پارلیمانی کمیٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعت کمپنی نہیں ہوتی، ایسا شخص جو پارلیمنٹ کا رکن نہ ہو کیا پارلیمنٹ کے اراکین کو کنٹرول کرسکتا ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک میں سیاست دان نااہل ہوئے، انھیں جلا وطن کیا گیا، حسین سہروردی، کھوڑو سمیت کئی مثالیں موجود ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایسا شخص جسے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہو وہ پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کیا عدالت نااہل قرار دیئے گئے شخص کو بولنے کے حق و بنیادی حقوق سے متاثر کر سکتی ہے۔

جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت کسی کوبھی بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرسکتی لیکن نااہل شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا، جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اگر کوئی وار لارڈز ہو جس کی بنانا ریپبلک کیطرح اپنی فوج ہو کیا وہ پارٹی سربراہ بن سکتا ہے۔فاضل وکیل نے کہا کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ کی دانش پر چھوڑ دیا جائے ، یہاں آرٹیکل 17 معاملے کو دیکھنے کیلئے کافی ہے فاضل وکیل کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے مزید سماعت آج جمعرات کی صبح تک ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :