سپریم کورٹ نے راﺅ انور کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی‘تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم‘ پولیس افسرکو عدالت میں پیشی کے موقع پر گرفتار نہ کیا جائے-چیف جسٹس کی ہدایت

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 13 فروری 2018 13:37

سپریم کورٹ نے راﺅ انور کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی‘تحقیقات کے لیے جے ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 فروری۔2018ء) پاکستان کی سپریم کورٹ نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں نوجوان نقیب اللہ کی ہلاکت کے مقدمے کے مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیر راﺅ انوار کی حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے تین رکنی بینچ نے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سندھ پولیس اور وفاقی دارالحکومت کی پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ راﺅ انوار کو گرفتار نہ کریں۔

عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ کوئی ملزم راﺅانوار کو نقصان نہ پہنچائے کیونکہ اس سے ثبوت ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔عدالت نے ملزم راﺅ انوار سے کہا ہے کہ وہ 16 فروری یعنی جمعے تک عدالت میں پیش ہوں۔

(جاری ہے)

نقیب اللہ قتل کیس سے متعلق از خودنوٹس کی سماعت کے دوران عدالت میں ملزم راﺅ انوار کا خط پڑھ کر سنایا گیا جو انہوں نے پاکستان کے چیف جسٹس کے نام لکھا تھا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اگر چیف جسٹس اس واقعے سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنا دیں تو وہ ان کے سامنے پیش ہونے کے لیے تیار ہیں لیکن سندھ حکومت کی طرف سے بنائی گئی تحقیقاتی ٹیم پر انہیں اعتبار نہیں ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب تک راﺅ انوار عدالت میں پیش ہو کر اس خط کی تصدیق نہیں کرتے اس وقت تک عدالت اس معاملے میں نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نہیں بناسکتی۔

عدالت کے استفسار پر سندھ پولیس کے سربراہ اے ڈی خواجہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس خط میں لکھی گئی عبارت کے نیچے جو دستخط ہیں وہ راﺅ انوار کے ہی ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس کے دوران اس بات کا عندیہ دیا کہ اس معاملے میں ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی جائے گی جس میں خفیہ اداروں کے بریگیڈیئر رینک کے افسران بھی شامل ہوں گے۔بینچ کے سربراہ نے سندھ پولیس کے سربراہ سے ملزم راﺅ انوار کی گرفتاری کے بارے میں سوال کیا تو اے ڈی خواجہ نے کہا کہ انہیں ملزم کی گرفتاری کے لیے کچھ مزید وقت چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی طرف سے دس روز کی مہلت دیے جانے کے باوجود ملزم گرفتار نہیں ہوا۔

عدالت نے کہا کہ مزید وقت دینے کے بعد بھی نتیجہ تبدیل ہونے کی توقع نہیں ہے۔اے ڈی خواجہ نے کہا کہ ملزم راﺅ انوار واٹس ایپ کا استعمال کررہے ہیں جس کی وجہ سے ان کو لوکیشن کا سراغ نہیں مل رہا۔انہوں نے کہا کہ انٹیلیجنس بیورو کے پاس بھی واٹس ایپ کی کال ٹریس کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ سماعت کے دوران مقتول نقیب اللہ کے والد کا خط بھی پڑھ کر سنایا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ملزم راﺅانوار کی عدم گرفتاری پر عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ عدالت فوج کے خفیہ اداروں کو طلب کر کے ان سے راﺅانوار کی عدم گرفتار نہ پر پوچھ گچھ کرے۔اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے راﺅ انوار کو گرفتار نہیں کرسکے اس لیے ملزم کی گرفتاری کے لیے میڈیا پر اشتہار دیا جائے اور لوگوں کی مدد حاصل کی جائے۔

متعلقہ عنوان :