سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے کیس کی سماعت

بددیانتی یا دیانتداری کو اقدام کے ذریعے جانچا جاتا ہے،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہونی چاہیے،وکیل عاصمہ جہانگیر

جمعرات 8 فروری 2018 22:42

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے ..
اسلام آباد۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 فروری2018ء) سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے کیس کی سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کرتے ہوئے کہاہے کہ عدالت کی نظر میں آرٹیکل 62اور 63 آزاد اور الگ الگ ہیں جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گی متعلقہ فرد کی نااہلی بھی موجود رہے گی، ممکن ہے اس کیس میں عدالت کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کرلے ،بددیانتی یا دیانتداری کو اقدام کے ذریعے جانچا جاتا ہے،عدالت کسی بھی نکتہ پر ٹھوس سوالات تو حل کرسکتی ہے، لیکن مفروضے نہیں ، پیرکوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید ، جسٹس عمرعطابندیال ، جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس سجاد علی شاہ پرمشتمل پانچ رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پردرخواست گزاررائے حسن نواز کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے پیش ہوکر دلائل دیئے کہ ووٹرز کے لئے کوئی نااہلی یانااہلیت نہیں ہوتی اورآرٹیکل62ون ایف میں ابہام پایا جاتاہے ، سوال یہ ہے کہ اگرکسی شخص کی شہرت اچھی ہے نہ بری تواس کے کردار کاتعین کیسے ہوگا، یہ بھی واضح نہیں کہ اس حوالے سے ڈیکلریشن کونسی عدالت دے گی، میرے موکل کواس لئے نااہل کیا گیا کہ انہوں نے اثاثے نہیں بتائے تھے جبکہ اصل صورتحال یہ تھی کہ کمپنی کااثاثہ فروخت ہوچکاتھا اورکمپنی ان کے نام پربھی نہیں تھی، فاضل وکیل نے مزید کہاکہ جوکام پارلیمنٹ نے نہیں کیا وہ عدالت کیسے کرسکتی ہے،سیاسی معاملات پر فیصلہ سازی عدالت کونہیں پارلیمنٹ کوکرنی چاہیے، جسٹس عمرعطابندیال نے ان سے کہاکہ عدالت ٹھوس سوالات کوحل کرسکتی ہے لیکن مفروضہ پرمبنی سوالات کوحل نہیں کرسکتی۔

(جاری ہے)

دیکھنا یہ ہے کہ آرٹیکل62ون ایف کے حوالے سے سوال ٹھوس حیثیت کاحامل ہے یانہیں، فاضل وکیل کاکہنا تھا کہ 1985 ء سے قبل کسی رکن کو اس آرٹیکل کے تحت نااہل قرار نہیں دیا گیا، جس کے بعد2002 میں ایل ایف او آیا تو عوامی نمائندگی قانون میں ترمیم ہوئی، عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ اگر دو روپے کی بددیانتی ہو تو اسکی سزا الگ ہوگی، چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ بددیانتی یا دیانتداری کو اقدام کے ذریعے جانچا جاتا ہے، جسٹس عمرعطابندیال کاکہناتھاکہ عدالت میں کھڑے ہوکر کوئی شخص جعلی ڈگری کا دفاع نہیں کرسکتا، عدالت میں ایک ایسا شخص بھی آیا تھا جس نے خود تسلیم کیا کہ اسکی ڈگری جعلی ہے، اس نے مستعفٰی ہوکر دوبارہ الیکشن لڑ ااورپارلیمنٹ میں پہنچ گیا، ضمنی الیکشن میں اس نے پہلے سے زیادہ ووٹ لئے، چیف جسٹس نے فاضل وکیل سے پوچھاکہ اگرکوئی ڈیکلیئر غیرایماندار ہے ایسے شخص کی نااہلی کی مدت کیا ہوگی، سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ ڈیکلئیر نااہل شخص کی نااہلی کی مدت ڈیکلریشن کے برقرار رہنے تک موجود رہے گی، جبکہ عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال ہونی چاہیے، جس پرجسٹس شیخ عظمت سعید نے ان سے کہاکہ ہمیں بتایا جائے کہ 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل ون ایف کی مدت کیوں نہیں لکھی گئی، چیف جسٹس نے کہاکہ ہماری نظر میں آرٹیکل 62اور 63 آزاد اور الگ الگ ہیں اورجب تک ڈیکلریشن موجود رہے گی تو نااہلی موجود رہے گی ، بعدازاں عدالت نے مزید سماعت آئندہ پیرتک ملتوی کرتے ہوئے واضح کیاکہ آئندہ سماعت پراٹارنی جنرل دلائل دیں گے جبکہ اس کیس میں مزید کسی کونہیں سناجائے گا۔

متعلقہ عنوان :