انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم ،ْکوئی ججز کو نکال باہر نہیں کرسکتا ،ْچیف جسٹس ثاقب نثار

ہم جلسہ کرسکتے ہیں اور نہ لوگوں کو ہاتھ کھڑا کرنے کا کہہ سکتے ہیں، عوام سپریم کورٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنیں گے ،ْ ریمارکس بے انصافی سے معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ،ْانصاف کرنا ہماری ذمہ داری ہے ،ْعدالتیں ختم ہوجائیں تو پھر جنگل کا قانون ہوگا ،ْسپریم کورٹ کسی آئینی ادارے کو دھمکانا، تنقید کرنا آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہے ،ْجسٹس اعجاز الاحسن توہین عدالت میں مجرم کی سزا 6 ماہ ہے اور عدالت کے پاس ملزم کو اس سے زیادہ مدت کیلئے جیل بھیجنے کا اختیار ہے ،ْچیف جسٹس قانون ساز پارلیمنٹ کے ذریعے عدالتی فیصلے کا اثر ختم کرسکتے ہیں ،ْ کیا ہم اس بنیاد پر قانون کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں چیف جسٹس کا استفار قانون آئین سے متصادم ہے تو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے ،ْلطیف کھوسہ عدالت اتنی رحمدلی نہ دکھائے کہ ریاست کو جھیلنا پڑے ،ْ ،ْ باپ بیٹی دونوں تقریریں کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں کیوں نکالا ،ْ لطیف کھوسہ سیسیلین مافیا اور گارڈ فادر کی عدالتی آبزرویشن درست تھی، آج کہا جارہا ہے کہ چیف جسٹس سمیت تمام ججز کو باہر نکال دیں ،ْدلائل

بدھ 7 فروری 2018 16:51

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 فروری2018ء) سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہم جلسہ کرسکتے ہیں اور نہ لوگوں کو ہاتھ کھڑا کرنے کا کہہ سکتے ہیں، عوام سپریم کورٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنیں گے، کوئی ججز کو نکال باہر نہیں کرسکتا ،ْ بے انصافی سے معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ،ْانصاف کرنا ہماری ذمہ داری ہے ،ْعدالتیں ختم ہوجائیں تو پھر جنگل کا قانون ہوگا۔

بدھ کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ اور پاکستان مسلم لیگ ( ن) کے رہنما راجہ ظفرالحق بھی پیش ہوئے۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفر الحق سے کہا کہ آپ عدالت میں آتے ہیں تو ہمیں خوشی ہوتی ہے ،ْآج کل آپ کے ڈرانے والے لوگ عدالت نہیں آتے، ذرا اٴْن لوگوں کو کبھی پیار سے لے کر آئیں ،ْدیکھیں ہم ڈرتے ہیں یا نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا تقدس واضح نظر آنا چاہیے تھا ،ْلطیف کھوسہ کے خلاف فیصلہ دیا لیکن ان کے ماتھے پر شکن نہیں آتی۔اس موقع پر پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ نواز شریف نے عدالت اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی، 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئین ایک عمرانی معاہدہ ہے اور بہت مقدس ہے جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ججوں کو اختیار آئین نے دیئے ہیں ،ْ عدلیہ اور فوج کو آئین نے تحفظ دیا ہے ،ْ آئین کا تحفظ اصل میں ملک کا تحفظ ہے۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کسی آئینی ادارے کو دھمکانا، تنقید کرنا آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہے ،ْ عدالت نے واضح قرار دیا تھا کہ نواز شریف نے مکمل سچ نہیں بتایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے عدلیہ کے وقار کو بحال کرنا ہے ،ْ کون صحیح اور کون غلط ہے اس کا فیصلہ لوگوں نے کرنا ہے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ لوگوں کومعلوم ہے کہ اس عدلیہ پر حملہ کس نے کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت میں مجرم کی سزا 6 ماہ ہے اور عدالت کے پاس ملزم کو اس سے زیادہ مدت کیلئے جیل بھیجنے کا اختیار ہے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت اتنی رحمدلی نہ دکھائے کہ ریاست کو جھیلنا پڑے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتیں ختم ہوجائیں تو پھر جنگل کا قانون ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے جسٹس اعجازالاحسن نے برطانیہ کی عدالت کا فیصلہ دکھایا ہے، جس میں لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے پر بلاجواز تنقید ہو تو جج جواب دے سکتے ہیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملک کی تباہی کردی گئی ہے ،ْ ہیجان پیدا کردیا گیا ہے ،ْ باپ بیٹی دونوں تقریریں کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں کیوں نکالا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ صبر کیوں دکھا رہے ہیں جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ معاشرہ سو نہیں رہا ،ْجاگ رہا ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ فیصلے میں لکھا گیا کہ عدالت کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے کاجواب دینا پڑتا ہے ،ْیہاں عدالت کو اسکینڈلائز کیا جارہا ہے، نواز شریف نے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی موجودہ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ نواز شریف میرا وزیر اعظم ہے اور فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قانون ساز پارلیمنٹ کے ذریعے عدالتی فیصلے کا اثر ختم کرسکتے ہیں ،ْ کیا ہم اس بنیاد پر قانون کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں ۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ قانون آئین سے متصادم ہے تو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مطابق آئین کی روح یہ ہے کہ ریاست پر ایماندار شخص حکمرانی کرے ،ْ اگر ادارے کا سربراہ ایماندار نہ ہو تو پورے ادارے پر اثر پڑتا ہے ،ْسپریم کورٹ کی عمارت شاہراہ دستور پر قائم عمارتوں سے اونچی ہے ،ْ یہ عمارت کیوں اونچی ہے، نہیں بتاؤں گا ،ْہماری ذمہ داری انصاف کرنا ہے جس سے معاشرہ قائم رہتا ہے ،ْ بے انصافی سے معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ لوگ اپنے خلاف خبر نہیں چھپنے دیتے عدالت نے انہیں گارڈ فادر ایسے ہی نہیں کہا یہ لوگ گارڈ فادر ہیں ،ْ انہوں نے عدالت کے سامنے جعلی دستاویزات پیش کیں۔انہوں نے کہا کہ پاناما کیس کا فیصلہ اخبار میں مکمل نہیں چھپا اگر پورا فیصلہ چھپ جاتا تو یہ نہ کہتے مجھے کیوں نکالا ۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ سیسیلین مافیا اور گارڈ فادر کی عدالتی آبزرویشن درست تھی، آج کہا جارہا ہے کہ چیف جسٹس سمیت تمام ججز کو باہر نکال دیں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عوام سپریم کورٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنیں گے، ہم پریشان ہیں نہ ہی قوم پریشان ہے ،ْالحمدللہ کوئی نکال باہر نہیں کرسکتا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ عدلیہ کی تضحیک اور تذلیل پر آرٹیکل 204 کے تحت سزا دے سکتے ہیں۔بعد ازاں عدالت نے الیکشن ایکٹ 2017 کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت جمعرات 8 فروری تک ملتوی کردی۔