سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 کا ریکارڈ طلب کرلیا‘

سماعت کل تک کیلئے ملتوی ہمیں کوئی نہیں نکال سکتا‘ عدلیہ کے وقار کو بحال ہم نے کرنا ہے‘ عدلیہ کی تضحیک پر آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت سزا دے سکتے ہیں‘ پاکستان کے عوام سپریم کورٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنیں گے‘ یہ عدالت آئین کے تحت بنائی گئی ہے‘ اس کا تقدس واضح نظر آنا چاہئے کون صحیح ہے اور کون غلط اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے‘چیف جسٹس ثاقب نثار کے دوران سماعت ریمارکس

بدھ 7 فروری 2018 15:15

سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 کا ریکارڈ طلب کرلیا‘
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 فروری2018ء) سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 کا ریکارڈ طلب کرلیا‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں کوئی نہیں نکال سکتا‘ عدلیہ کے وقار کو بحال ہم نے کرنا ہے‘ عدلیہ کی تضحیک پر آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت سزا دے سکتے ہیں‘ پاکستان کے عوام سپریم کورٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنیں گے‘ یہ عدالت آئین کے تحت بنائی گئی ہے‘ اس کا تقدس واضح نظر آنا چاہئے کون صحیح ہے اور کون غلط اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے‘ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ ان کے وزیراعظم نواز شریف ہیں کیا عدالتی فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں ہی برطانوی عدالت کے فیصلے میں لکھا ہے کہ بلا جواز تنقید پر ججز جواب دے سکتے ہیں‘ اعلیٰ عدلیہ کو اسکینڈلائز کیا جارہا ہے‘ عدالت کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے کا جواب دینا پڑتا ہے‘ آئینی ادارے کو دھمکانا آئین کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہے ‘عدالت نے واضح قرار دیا تھا کہ نواز شریف نے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی۔

(جاری ہے)

بدھ کو سپریم کورٹ میں الیکشن ایکٹ 2017 کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عدالتیں ختم ہوجائیں تو پھر جنگل کا قانون ہوگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے برطانوی عدالت کا فیصلہ دکھایا فیصلے میں لکھا ہے کہ بلا جواز تنقید پر ججز جواب دے سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے کا جواب دینا پڑتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جلسہ کرسکتے ہیں نہ لوگوں کو کھڑا کرنے کا کہہ سکتے ہیں یہ عدالت آئین کے تحت بنائی گئی ہے۔ لطیف کھوسہ فیصلے کو برا کہتے ہیں لیکن احترام کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے راجہ ظفر الحق سے مکالمہ کیا کہ راجہ ظفر الحق صاحب آپ عدالت آتے ہیں ہمیں خوشی ہوتی ہے آج کل آپ کے ڈرانے والے لوگ نہیں آتے انہیں تو لیکر آئیں‘ ذرا ان لوگوں کو کبھی پیار سے لیکر آئیں ان لوگوں کو لیکر آئیں ہم بھی دیکھیں ہم ڈرتے ہیں یا نہیں۔

سپریم کورٹ کا تقدس واضح نظر آنا چاہئے تھا جس کو جو ملتا ہے یہاں سے تول کر لے جائے۔ لطیف کھوسہ نے اس موقع پر کہا کہ نواز شریف نے عدالت اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہے 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا گیا ۔ آئین کا تحفظ اصل میں ملک کا تحفظ ہے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئینی ادارے کو دھمکانا آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے عدلیہ کے وقار کو بحال کرنا ہے کون صحیح ہے اور کون غلط اس کا فیصلہ لوگوں نے کرنا ہے۔ توہین عدالت کیس میں مجرم کی سزا چھ ماہ ہے۔ عدالت کے پاس اس سے زیادہ ملزم کو جیل بھیجنے کا اختیار ہے لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت اتنی رحم دلی نہ دکھائے کہ ریاست کو جھیلنا پڑے۔ یہ لوگ اپنے خلاف خبر نہیں چلنے دیتے عدالت نے انہیں گاڈ فادر ایسے تو نہیں کہا۔

عدالت کے سامنے جعلی دستاویزات پیش کی گئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت نے واضح قرار دیا کہ نواز شریف نے مکمل سچ نہیں بولا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک کرتے پر حضرت عمرؓ پر سوال اٹھ گیا تھا انہوں نے تو مزید استفسار نہیں کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ فیصلے میں لکھا نواز شریف نے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی۔ لطیف کھسہ نے اس پر کہا کہ نئے قانون پر اثاثوں کی ڈیکلریشن کا خانہ ختم کردیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے اس پر کہا کہ آپ نے بھی تو اس قانون پر ہاتھ کھڑا کیا ہوگا عدالت نے الیکشن ایکٹ 2017 کا ریکارڈ طلب کرلیا چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی کا سربراہ امیدواروںکو پارٹی ٹکٹ جاری کرتا ہے کیا موجودہ وزیراعظم کے بیانات کا ریکارڈ موجود ہے موجودہ وزیراعظم کہتے ہیں کسی نے انہیں وزیراعظم بنایا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں نواز شریف ان کے وزیراعظم ہیں شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں نواز شریف نے انہیں وزیراعظم بنایا ہے کیا عدالتی فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں ہی چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا قانون ساز پارلیمنٹ کے ذریعے عدالتی فیصلے کا اثر ختم کرسکتے ہیں کیا اس بنیاد پر قانون کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں آپ کے مطابق آئین کی روح یہ ہے کہ ایماندار شخص حکمرانی کری معاشرے بے انصافی پر نہیں بلکہ انصاف پر چلتے ہیں۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ سیلسین مافیا اور گارڈ فادر کی آبزروریشن بالکل درست دی گئی ہے کہا جارہا ہے چیف جسٹس سمیت تمام ججز کو نکال دیں اس موقع پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پاکستان کے عوام سپریم وکرٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنیں گے نہ ہم پریشان ہیں اور نہ قوم ہمیں کوئی باہر نہیں نکال سکتا۔ ریاست کے ستون کی بنیاد عدلیہ ہے عدلیہ تضحیک پر آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت سزا دے سکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدلات کو اسیکنڈلائز کیا جارہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے آپ کو حکمت کا بہت کم علم ہے اس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پاکستان جاگ رہا ہے یہ بہت چھوٹی سی بات ہے ہمیں پوری قوم پر بھروسہ ہے ہم ایسی باتوں کو جانے دے رہے ہیں۔ کوئی بھی شخص اس ملک کو تباہ نہیں کرسکتا ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا جو ہوا ہے اور جو ہورہا ہے وہ سب الله کی نشانی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت ابھی جوان ہے کیا ملک میں سیاسی جماعتیں سربراہان کے ساتھ قائم ہیں کیا شخصیات کے جانے سے پارٹی بھی ختم ہوجاتی ہی لطیف کھوسہ اس حوالے سے تحریری مواد دیں کیس کی مزید سماعت جمعرات تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔