انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 میں ترمیم کیس‘ عدالت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کو فریق بنانے کی درخواست مسترد کردی‘نوازشریف نے نااہلی کیس میں فریق نہ بننے کے لیے درخواست جمع کروادی‘سیاسی قیادت کو منتخب کرنا یا مستردکرنا عوام کا حق ہے-درخواست میں موقف

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 6 فروری 2018 17:24

انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 میں ترمیم کیس‘ عدالت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06 فروری۔2018ء) سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 میں ترمیم کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کو فریق بنانے کی درخواست مسترد کردی ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 میں ترمیم کے خلاف درخواست کی سماعت کی، سماعت کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل سلمان اکرم راجہ، پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ اور رکن قومی اسمبلی شیخ رشید کے وکیل فرغ نسیم پیش جبکہ نون لیگ کے رہنما راجہ ظفر الحق بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران راجہ ظفر الحق نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف نے اس کیس میں فریق بننے سے انکار کردیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی ان کا بہتر دفاع کرسکتی ہے۔

(جاری ہے)

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر نواز شریف نہیں آتے تو یکطرفہ کارروائی کا فیصلہ کریں گے، یہ کیس 2 سے 3 دن چلے گا لہٰذا وہ جب چاہیں اس کیس کا حصہ بن سکتے ہیں۔ سماعت کے دوران قومی اسمبلی کی نمائندگی کے طور پر کامران مرتضیٰ پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت سے کہا کہ سینیٹ انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروانے ہیں اور اس لیے عدالت سے چند دن کی چھٹی چاہیے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا ہوگا وفاق کو کیسے فریق بنا سکتے ہیں، پارلیمان کی عزت کرتا ہوں انہیں فریق نہیں بنا سکتے۔سماعت کے دوران شیخ رشید احمد کے وکیل فرغ نسیم نے دلائل دیے کہ نواز شریف کو عدالت نے نااہل قرار دیا اور کہا گیا کہ وہ صادق اورامین نہیں۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صادق کا لفظ آپ درمیان میں کہاں سے لے آئے، آئین میں لفظ ایماندار اور امین ہے، صادق کا لفظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب تھا۔

فرغ نسیم نے کہا کہ نواز شریف کی نااہلی کے 17 دن بعد نیا قانون آگیا اور یہ قانون سازی آئین اور عدالتی فیصلے سے فراق ہے۔انہوں نے کہا عوام کا بنیادی حق ہے کہ ان کے نمائندے ایماندار ہوں، لہٰذا جسٹس اعجاز الحسن کے پاناما فیصلے پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔نئی قانون کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے اس سوال کا جواب دیتا کہ پارٹی صدر کے بہت اختیارات ہوتے ہیں اور اس کے تحت پارٹی صدر ارکان اسمبلی کو نااہل کروا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ منگوا کر دیکھنا ہوگا کہ کس بنیاد پر قانون کالعدم ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ مستقبل کی پارلیمان کے لیے ہوگا اور اس پر احتیاط سے کام کرنا ہوگا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صرف اخلاقی بنیاد اور بدنیتی پر کوئی قانون کالعدم نہیں ہوسکتا، جب تک قانون پر چلیں گے کوئی غلط کام نہیں ہوسکتا۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا قانون آئینی پابندی کو ختم کرسکتا، اگر انتخابات نہیں لڑ سکتے تو پارٹی صدر ہونے سے کیا ہوگا۔جس پر فرغ نسیم نے بتایا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی سیاست،وزیر اعظم کے انتخاب اور قانون سازی پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور پارلیمانی سیاست میں پارٹی سربراہ کا بڑا کردار ہے۔ فرغ نسیم کے دلائل پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو شخص غیر امین اور غیر ایماندار ہے وہ امین اور ایماندار ارکان کو کنٹرول کرے گا، اس طرح سے تو پارٹی کا سربراہ کنگ میکر ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق آئندہ کے وزیر اعظم کا انتخاب بھی پارٹی صدر کرے گا، آپ کے مطابق پارٹی صد کے پاس بہت زیادہ اختیارات ہیں۔سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ آئین کے متصادم ہے، ہمیں یہ بتائیں کہ پارٹی صدر بننا آئین سے متصادم کس طرح سے ہے۔دریں اثناءنواز شریف نے 62ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیاہے۔

نواز شریف کی طرف سے سپریم کورٹ میں جواب داخل کرادیا گیا۔نواز شریف نے بذریعہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ جواب داخل کر ایا۔31جنوری کو اعظم نذیر تارڑ نے مشاورت کے لیے سپریم کورٹ سے وقت لیا تھا۔ نواز شریف نے عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیاہے۔نواز شریف کی طرف سے داخل جواب میں کہا گیا کہ درخواست گزار یا مقدمہ میں فریق نہیں ہوں۔ فریق ہوتا تو جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الا حسن سے مقدمہ کی کارروائی سے الگ ہونے کی درخواست کرتا۔

جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الا احسن میری اہلیت کے مقدمہ میں شامل رہے اور اپنی رائے دے چکے ہیں۔ کئی متاثرہ فریق عدالت کے روبرو ہیں ان کے مقدمہ کو متاثر نہیں کرنا چاہتا۔جواب میں کہا گیا ہے کہ طے شدہ اصول ہے کہ انتخابات میں حصہ لینا بنیادی حق ہے۔ آئین کے آرٹیکل62 ون کے تحت تاحیات نا اہلی نہیں ہو سکتی۔ اس 62 ون ایف میں پارلیمنٹ نے کوئی مدت کا تعین نہیں کیا۔

نا اہلی صرف اس الیکشن کے لیے ہو گی جس کو چیلنج کیا گیا ہو۔نوا ز شریف نے اپنے جواب میں کہا جمہوریت پر پختہ یقین رکھتا ہوں۔ انتخابات میں حصہ لینا پاکستان کے عوام کا حق ہے عوام کا حق ہے کہ وہ کسے منتخب کریں یا کسے مسترد کریں۔ درست جمہوری عمل کے ذریعے عوام کو اپنی نمائندے منتخب کرنے کا نا قابل تنسیخ حق ہے ،ایسا نہیں کہ نکالنے کا عمل شروع کر کے عوامی نمائندوں کو منتخب کرنے کے لیے ایک مخصوص فہرست دی جائے۔