دبئی میں7 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی 1100 ارب روپے کی جائیدادوں کا انکشاف‘پیسہ غیرقانونی ذرائع سے بیرون ملک گیا-سٹیٹ بنک

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 6 فروری 2018 15:13

دبئی میں7 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی 1100 ارب روپے کی جائیدادوں کا انکشاف‘پیسہ ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06 فروری۔2018ء) دبئی میں7 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی 1100 ارب روپے کی دبئی میں جائیدادیں ہیں، جن میں سیاست دان، ریٹائرڈ جرنیل، سابق ججز، بیوروکریٹس،صحافی‘میڈیا ہاﺅسزکے مالکان‘ کاروباری افراد اور دیگر افراد شامل ہیں۔1200 لوگوں کو دبئی میں جائیدادوں کے متعلق سوالات بھیجے متعددجائیدادیں اور اثاثے غریب ترین کسان کے نام پر خریدے گئے ہیں۔

نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے امور خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے بتایا کہ موجودہ حکومت میں ہی ایک ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی جا رہی ہے جس کے ذریعے لوگوں کو اپنی جائیداد ریگولرائز کرنے کا موقع دیا جا ئے گا۔ گزشتہ کئی ماہ سے دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کے معاملہ پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی نے متعدد مرتبہ متعلقہ اداروں سے تفصیلات طلب کیں لیکن اداروں نے اس حوالے سے لاعلمی ظاہر کی، ایف آئی اے کے پاس صرف 100 افراد کی فہرست ہے جنہوں نے دبئی میں جائیدادیں حاصل کیں لیکن تحقیقات کے مطابق دبئی میں جائیدادیں لینے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، گزشتہ کئی برسوں میں اربوں روپے خاموشی سے بیرون ملک منتقل ہوئے، ملکی قوانین موجود ہیں، اداروں کے علم میں لائے بغیر دولت بیرون ملک منتقلی غیرقانونی اور مشکوک ہے، قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیسے دھڑا دھڑ دبئی منتقل کیے جارہے ہیں اور وہاں سرمایہ کاری ہورہی ہے اور قیمتی جائیدادیں خریدی جارہی ہیں لیکن جن اداروں کو کارروائی کرنا ہے وہ لاعلم دکھائی دیتے ہیں- پاکستان سے دبئی منتقل ہونے والی رقم 11 کھرب روپے سے بھی زیادہ ہے، تحقیقات کے مطابق کچھ برسوں میں 1100 ارب روپے پاکستان سے دبئی منتقل کیے گئے لیکن یہ رقم اس سے بھی 4? گنا زیادہ ہوسکتی ہے، دستاویزی ثبوتوں کے مطابق تقریباً 7 ہزار پاکستانیوں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دبئی میں جائیدادیں خریدیں، یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے، ان لوگوں میں سیاستدان،اداکار، وکلاء، ڈاکٹرز، میڈیا مالکان،صحافی‘ ریٹائرڈ جرنیلز، ریٹائرڈ ججز، بیوروکریٹس، کاروباری اور بینکار بھی شامل ہیں، پاکستانی قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے پیسہ بیرون ملک منتقل ہوتا رہا اور ادارے خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھتے رہے، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور ایف آئی اے مکمل طور پر لاعلم ہیں اور قانون پر عملدرآمد نہیں کیاگیا، بیرونی اثاثہ جات ظاہر کرنے کے ریگولیشن ایکٹ کی کھلی خلاف ورزی کی گئی، سٹیٹ بینک کاکہنا ہے کہ کسی ایک پاکستانی نے بھی 1990ءکے بعد بیرون ملک سرمایہ کاری یا جائیداد خریدنے سے متعلق آگاہ نہیں کیا، حالانکہ قانون کے مطابق اسٹیٹ بینک کو بتانا ضروری ہے، ایف بی آر کا کہنا ہے کہ دبئی میں مہنگی جائیدادیں خریدنے والے 95 فیصد پاکستانیوں نے اپنے ٹیکس ریٹرنز میں ان جائیدادوں کو ظاہر نہیں کیا، ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک کے پاس کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی جامع تحقیقات ہوئی ہے، یہ معاملہ اس لئے بھی اہم ہے کہ ہمارے پاس موجود فہرست میں کئی سیاستدان بھی شامل ہیں، سیاستدانوں کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ایف بی آر اور الیکشن کمیشن کو اپنے تمام اندرون ملک و بیرون ملک اثاثوں سے آگاہ کریں، اگر انہوں نے کچھ بھی چھپایا تو وہ سیاست کیلئے نا اہل ہوسکتے ہیں-تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ لوگوں نے اپنے ملازمین کے نام پر جائیدادیں خرید رکھی ہیں‘ملکی ادارے سات ہزار افراد کی جانب سے منتقل کردہ رقوم کے حوالے سے لا علم ہیں، ان افراد کی فہرست موجود ہے خدشہ ہے کہ کہیں یہ پیسہ حوالہ یا ہنڈی کر کے تو دبئی نہیں پہنچایا گیا، کہیں کرپشن کا پیسہ تو دبئی کی جائیدادوں کی خرید و فروخت میں استعمال نہیں ہورہا، کیونکہ دبئی مشرق وسطیٰ کا وہ واحد ملک ہے جسے ٹیکس ہیون سمجھا جاتا ہے یعنی یہاں ٹیکس سے بچنے کیلئے سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

دستاویزات کے مطابق118 ممالک کے 34 ہزار امیر ترین افراد نے 15 سال کے دوران دبئی میں جائیدادیں خریدیں، دبئی میں جائیدادیں بنانے والوں میں پاکستانی تیسرے نمبر پر ہیں، پاکستانیوں نے اس معاملہ میں امریکا، برطانیہ اور دیگر امیر ممالک کے سرمایہ کاروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، صرف مقامی افراد اور بھارتی پاکستانیوں سے آگے ہیں، 2002ءسے2018 تک پانچ ہزار جائیدادیں پاکستانیوں نے اپنے نام سے خریدیں جبکہ 2 ہزار پاکستانیوں نے اپنے فرنٹ مین کے نام پر جائیدادیں لیں، 780 پاکستانی دہری شہریت رکھتے ہیں یا پھر مستقل پاکستان سے باہر مقیم ہیں، باقی 6 ہزار سے زائد افراد پاکستان میں ہی رہتے ہیں اور ممکنہ طور پر انہوں نے پاکستان سے ہی دبئی پیسے منتقل کیے، پاکستانیوں نے تقریباً 967 ولاز یا رہائشی عمارتیں مختلف علاقوں میں خردیں، 75 قیمتی ترین فلیٹس ایمریٹس ہلز میں لیے، 165جائیدادیں ڈسکوری گارڈنز میں،167 فلیٹس جمیرا آئی لینڈ میں، 123 گھر جمیرا پارک میں، 245 فلیٹس جمیرا ولیج میں،10 جائیدادیں پام دیرا میں، 160 جائیدادیں پام جبل علی،25 جائیدادیں پام جمیرا شورلائن میں جبکہ234 جائیدادیں انٹرنیشنل سٹی اور 230 جائیدادیں سلیکون ویلی میں خریدی گئیں۔

برج خلیفہ دبئی ڈاﺅن ٹاﺅن اور ان کے ارد گرد کے علاقوں میں بھی پاکستانیوں نے جائیدادیں خریدیں۔ دبئی کے یہ تمام علاقے مہنگے ترین ہیں، تحقیقات کے مطابق دبئی کی ان جائیدادوں کی مالیت 10 لاکھ درہم سے ڈیڑھ کروڑ درہم یعنی تین کروڑ پاکستانی روپے سے 45 کروڑ پاکستانی روپے تک ہے، 700جائیدادیں ایسی ہیں جن میں ہر ایک جائیداد کی قیمت ڈیڑھ کروڑ درہم یعنی 45 کروڑ پاکستانی روپے سے زائد ہے، 2800 جائیدادیں ایسی ہیں جن میں ہر ایک کی مالیت تقریباً ایک کرڑو درہم یعنی 30 کروڑ روپے سے زائد ہے،3500 جائیدادیں ایسی ہیں جن کی قیمت 10 لاکھ درہم یعنی تین کروڑ روپوں سے زائد ہے۔

دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے نے 27 اگست 2015ءکو دبئی میں پاکستانی ہائی کمیشن اور دبئی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا اور دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کی تفصیلات طلب کیں لیکن ابھی تک انہیں بھی کوئی جواب نہیں ملا، البتہ اسٹیٹ بینک نے 23 ستمبر 2015ءکو ایف آئی اے کو جواب دیا کہ 1990ءکے بعد سے کسی بھی پاکستانی نے کوئی منقولہ یا غیرمنقولہ جائیداد سے آگاہ نہیں کیا،معلوم ہوا کہ دبئی میں جائیدادیں خریدنے کیلئے کھربوں روپے کی رقم کا بڑا حصہ حوالہ اور ہنڈی کے ذریعہ ملک سے بھیجا گیا، دبئی بھیجی جانے والی رقم کا بڑا حصہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ءکی شق 192, 192/A اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک سے باہر بھیجا گیا۔

تقریباً 24 ارکان پارلیمنٹ کی بھی دبئی میں جائیدادیں ہیں، ان میں کچھ نے یہ جائیدادیں ایف بی آرمیں ظاہر کر رکھی ہیں لیکن الیکشن کمیشن کوا ٓگاہ نہیں کیا، کچھ نے یہ جائیدادیں ایف بی آر کو بتائیں اور نہ ہی الیکشن کمیشن کو بتائیں، کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایف بی آر اور الیکشن کمیشن کو بھی ظاہر کیں لیکن ان کا پیسوں کی منتقلی کا ریکارڈ اداروں کے پاس موجود نہیں کہ انہوں نے پیسہ کیسے پاکستان سے باہر منتقل کیا۔

اہم بات یہ ہے کہ حکومت ایک گرینڈ ایمنسٹی اسکیم لانے جارہی ہے جو نہ صرف بیرون ملک بلکہ اندرون ملک غیرظاہر کردہ اثاثوں کو سامنے لانے کی اہم کوشش ہوگی۔ صرف دبئی میں ہی نہیں لندن میں بھی پاکستانیوں کی جائیدادیں ہیں جہاں برطانوی حکومت نے نیا آرڈر غیرواضح دولت کا قانون نافذ کردیا ہے جس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیرمعمولی اختیارات حاصل ہوں گے، وہ برطانیہ میں کالے دھن سے بنائی گئی جائیدادوں کے خلاف بھرپور کریک ڈاﺅن کرسکیں گے، برطانوی ادارے 50 ہزار پاﺅنڈ سے زائد رقم کے اثاثوں کی تحقیقات کرسکیں گے، اگر آمدنی سے زیادہ اثاثے ہوئے تو وہ ضبط کرلیے جائیں گے، اگر کوئی وضاحت نہیں کرسکا کہ اس نے اثاثہ کیسے بنایا تو اسے ضبط کرلیا جائے گا، اس آرڈر کے مطابق اب ریاست کے بجائے اثاثوں کا مالک اپنی آمدنی کا ثبوت پیش کرنے کا پابند ہوگا، جائیداد کے مالک کو اپنے پیسے کی وضاحت کرنا ہوگی، اس حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ایک فہرست بھی تیار کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ برطانیہ میں700 ارب روپے مالیت کے اثاثوں پر ناقابل وضاحت دولت آرڈر کے تحت تحقیقات کی جائیں گی جس میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بھی شامل ہیں جن کی ملکیت شریف خاندان کے پاس ہے، البتہ یہ کب سے شریف خاندان کے پاس ہے اس حوالے سے تنازع ہے، اب اگر لندن میں تحقیقات ہوں گی تو کیا شریف خاندان یہی بتائے گا کہ ہمارے دادا کی دبئی میں مل تھی، وہ انہوں نے بیچی قطریوں کو پیسے دیئے، قطریوں نے ان پیسوں میں سے 2006ءمیں ایڈجسٹمنٹ کردی اور وہ آف شور کمپنیز نیلسن اور نیسکول جس کے تحت یہ فلیٹس موجود تھے وہ ہمارے پاس آگئے، اگر یہ وضاحت کریں گے تو کیا برطانوی حکام مان لیں گے، کیا برطانوی حکام قطری شہزادے سے پوچھیں گے، کیا قطری شہزادہ ان کو جوابدہ ہوگا، وہ وہاں جا کر یا اسکائپ پر انٹرویو کر کے بتائے گا، ثبوت دینے میں کامیاب ہوگا یا نہیں ہوگا، اگر قطری شہزادہ وہاں پر ثبوت دینے میں کامیاب ہوگیا اور برطانوی حکومت نے مان لیا تو کیا پاکستان میں شریف خاندان کا کیس مضبوط ہوجائے گا اور اگر برطانوی حکام نے وضاحت قبول نہ کی کیا پاکستان میں شریف خاندان کا کیس بہت کمزور ہوجائے گا، یہ سارا معاملہ شریف خاندان کیلئے مشکل پیدا کرسکتا ہے۔


متعلقہ عنوان :