کراچی کی تاجر تنظیموں نے سندھ لیبر پالیسی اور پہلی سندھ ٹرائی پارٹائٹ لیبر کانفرنس کی سفارشات کو مسترد کردیا

ڈارفٹ کی تیاری میں صرف چند لوگوں سے مشاورت کی گئی جو کہ انتہائی نامناسب ہے لہٰذا تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت یقینی بنائی جائے ،جاوید بلوانی

پیر 5 فروری 2018 19:37

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 فروری2018ء) کراچی کی سات انڈسٹرئیل ٹائون ایسوسی ایشنز کورنگی ، لانڈھی، سائیٹ، فیڈرل بی ایریا، نارتھ کراچی، سائیٹ سپر ہائی وے اور بن قاسم ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری، ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ایسوسی ایشز: پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹر ز ایسوسی ایشن، پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹر ز ایسوسی ایشن، پاکستان کاٹن فیشن گارمنٹس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، پاکستان نٹ ویئر اینڈ سوئٹرز اایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین و نمائندگان نے کراچی میں مشترکہ اجلاس میں ڈرافت سندھ لیبر پالیسی اور پہلی سندھ ٹرائی پارٹائٹ لیبر کانفرنس کی سفارشات پر شدید تشویش اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے متفقہ طور پر مسترد کرد یا اور حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے اور بلامشاورت یکطرفہ طور پر من مانی لیبر پالیسی کی تشکیل سے گریز کریں بصورت دیگر مضمرات سنگین ہوں گے جس کے انڈسٹرئیلائزیشن اور ایکسپورٹ انڈسٹری پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

(جاری ہے)

سندھ کی انڈسٹریز میں کراچی کا حصہ 80فیصد جبکہ صوبے کے لئے ریوینیو فراہم کرنے میں کراچی کا کردار تقریباً90فیصد ہے۔ جبکہ کراچی کی انڈسٹریز سب سے ذیادہ ملازمت کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ ڈارفٹ کی تیاری میں صرف چند لوگوں سے مشاورت کی گئی جو کہ انتہائی نامناسب ہے لہٰذا تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت یقینی بنائی جائے ۔ انڈسٹرئیل ٹائون ایسوسی ایشنز اور ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ایسوسی ایشزکے اس مشترکہ اجلاس میں کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے صدر طارق ملک، سائیٹ ایسوسی ایشن کے صدر اور پاکستان ہوزری مینو فیکچرر ز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیف کوآرڈینیٹر جاوید بلوانی، فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن کے صدر بابر خان ، لانڈھی ایسوسی ایشن کے صدر اسلام الدین ظفر،سائیٹ سپر ہائی ایسوسی ایشن کے صدر شیخ قیصر وحید مگوں، نارتھ کراچی ایسوسی ایشن کے صدرشاہد صابر، بن قاسم ایسوسی ایشن کے صدر سلیم دادا، پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹر ز ایسوسی ایشن کے صدر شیخ شفیق، پاکستان کاٹن فیشن گارمنٹس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق صدر خواجہ عثمان اور پاکستان نٹ ویئر اینڈ سوئٹرز اایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق صدر رفیق گوڈیل نے شرکت کی ۔

ایسوسی ایشنز نے مشترکہ اجلاس میں سندھ ٹرائی پارٹائٹ لیبر کانفرنس کی طرف سے لیبر کی ماہانہ اجرت کو 25ہزار روپے تک بڑھانے کی سفارش کو یکسر مسترد کرد یا اور کہا کہ پاکستان میں پہلے کی لیبر کی اجرت خطے کے دیگر ممالک کی نسبت ذیادہ ہے۔حکومت مہنگائی میں کمی میں ناکامی کا ملبہ لیبر کی اجرت بڑھانے کی صورت میں صنعتکاروں پر ڈالنے کے بجائے مہنگائی پر کنٹرول کرے۔

2014میں غیر کاریگر یا نا تربیت یافتہ لیبر کی ماہانہ تنخواہ11ہزار ماہانہ مقرر تھی جب روپے اور ڈالر کا ایکس چینج ریٹ 101روپے تھا اور مہنگائی کنزیومر پرائس انڈیکس کے لحاظ 8.62فیصد تھی۔ 2014سے لیکر2017تک ڈالر ایکس چینج ریٹ 9فیصد بڑھ گیا اور ڈالر کی قدر 101روپے سے بڑھ کر 110.55روپے تک پہنچ گئی جبکہ اس دوران مہنگائی کنزیومر پرائس انڈیکس میں 4.16فیصد کمی ہوئی جبکہ لیبر کی ماہانہ اجرت میں 36فیصد اضافہ ہو کر 11ہزار روپے سے بڑھ کر 15ہزار ماہانہ تک پہنچ گئی جو کہ خطے میں سب سے ذیادہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ اندرون سندھ میں گائوں اور چھوٹے شہروں میں لیبر کی کم از کم اجرت 10ہزار روپے سے کم علم میں آئی ہے۔ حکومت سندھ اندرون سندھ میں منظور شدہ 15ہزار روپے لیبر اجرت کا اطلاق یقینی بنائے۔انھوں نے کہا کہ لیبر کی کم از کم اجرت بنگلہ دیش میں 68ڈالرز، بھارت میں 115ڈالرز ہے جبکہ پاکستان میں لیبر کی ماہانہ اجرت 135ڈالرز ماہانہ بنتی ہے۔

پاکستان کی لیبر کی یہ اجرت بنگلہ دیش کے مقابلے میں 98فیصد اور بھارت کے مقابلے میں 17فیصد زیادہ ہے۔اسی طرح پاکستان میں صنعتی گیس کے نرخ بنگلہ دیش کی نسبت 126فیصد، بھارت سے 62.87فیصد اورویتنام سی26.5فیصد زیادہ ہیں۔ اسی طرح صنعتی بجلی کے نرخ پاکستان میں بنگلہ دیش اور بھارت سے 22فیصد اور ویتنام سے 37فیصد زیادہ ہیںپانی کے نرخ ملک بھر میں 0.50ڈالر جبکہ کراچی میں 2.30ڈالر فی ہزار گیلن ہیں۔

یہ مہنگے انڈسٹرئیل ان پٹس صنعتوں کی چلانے کی لاگت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہٰذاانھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔انھوں نے کہا کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کو چلانے کے محرکات جنرل انڈسٹری سے یکسر مختلف ہیں اسی طرح ایکسپورٹ انڈسٹری کی لیبر بھی جنرل انڈسٹری سے مختلف نوعیت کا کام کرتی ہے۔ اسلئے ایکسپورٹ انڈسٹری کی لیبر اور جنرل انڈسٹری کی لیبر کی اجرت یکساں نہیں طے ہو سکتی کیونکہ دونوں کے کام کا طریقہ مختلف ہے۔

اسلئے انھوں نے مطالبہ کیا کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیبر کی اجرت خطے میں دیگر مسابقتی ممالک میں لیبر کی اجرت کی مناسبت سے طے کی جائے بصورت دیگر ایکسپورٹ انڈسٹری کی پروڈکشن کے ساتھ ساتھ ملکی ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹس بھی متاثر ہوں گی۔ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل سیکٹر میں گارمنٹس ایکسپورٹ سیکٹر سب سے بڑا ہے جس میں لیبر کی سب سے ذیادہ کھپت ہے۔

ایکسپورٹ انڈسٹری حاصل شدہ ایکسپورٹ آرڈرز کی تکمیل کے مطابق چلتی ہے اور ان کا کام سیزن کے مطابق ہوتا ہے اور ان کی مصنوعات بھی سیزن کی مناسبت سے تیار ہوتی ہیں۔ اسی طرح گارمنٹس انڈسٹری میں مختلف مہارت اور اہلیت کے مطابق لیبر کام کرتی ہے ۔ ایکسپورٹ آردڑز مکمل ہونے کے بعد فیکٹریاں کام بند کردیتی ہیں جب تک نیا آرڈر نہ ملے۔ لہٰذا اس صورت میں ایکسپورٹ انڈسٹری مستقل بنیادوں پر 100فیصد تنخواہ پر لیبر رکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

اسلئے گارمنٹس فیکٹریوں میں عموماً کام کی مناسبت سے کنٹریکچول لیبر رکھی جاتی ہے۔ پیک سیزن میں عموماً لیبر کی اوسطاً تعد اد 5سو افراد پر مشتمل ہوتی ہے جو ایکسپورٹ آرڈر مکمل ہونے کے پروڈکشن بند ہونے کی صورت میں گھٹ کر 5رہ جاتی ہے۔انھوں نے کہا کہ سندھ کی ڈرافٹ لیبر پالیسی میں تجویز کردہ ورکرز اتھارٹی کی جانب سے فیکٹری کے اکاونٹس ، ریکارڈ، اسٹور اور عمارت کے آڈٹ کیلئے آڈیٹرتعینات کرنے کا ذکر ہے۔

اس کا اطلاق ایکسپورٹ انڈسٹری پر نہی ہو سکتاکیونکہ ایکسپورٹ انڈسٹری فائنل ٹیکس رجیم میں آتی ہے۔ علاوہ ازیں پرائیوٹ سیکٹر کی جنرل انڈسٹری پر بھی اس کا اطلاق موزوں نہیں ۔اسی طرح ڈرافت پالیسی میں لیبر یونین بنانے کے لئے تمام پابندیوں کے خاتمہ کیا ذکر ہے جس پر انڈسٹریز کا تحفظات ہیں ۔انھوں نے کہا کہ اگر سندھ حکومت نے مزکورہ لیبر پالیسی کو اپنی من مانی سے یکطرفہ طور پر منظور اور نافذ کرنے کی کوشش کی اور صنعتکاروں کے تحفظات دور نہ کئے تو اس کے نتائج مثبت نہ ہوں گے اور بالخصوص ایکسپورٹ سیکٹر شدید متاثر ہوگا اور ملک کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں بھی کمی واقع ہو گی ۔

پالیسی کو تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور تجاویز اور خطے میں مسابقتی ممالک کی لیبر پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ حالیہ لیبر اور انڈسٹرئیل ریلیشنز کے حوالے سے 16صوبائی قوانین کا اطلا ق کیا گیا ہے جس کی تشکیل میں بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کی رائے طلب نہیں کی گئی۔ایسوسی ایشنز کی دی گئی ڈرافٹ سندھ لیبر پالیسی پر تاریخ 25جنوری2017درج ہے جس میں تحریر ہے کہ لیبر اور انڈسٹرئیل ریلیشنز سے متعلق 16صوبائی قوانین بنائے جائیں گے جس میں سے 11قوانین حکومت منظور کر چکی ہے جبکہ بقیہ 5قوانین اس وقت تک منظور نہیں ہوئے۔

حیرانگی کی بات ہے کہ ایک سال پرانا ڈرافٹ ایسوسی ایشنز کو دیا گیا جبکہ اطلاعات کے مطابق بقیہ نا منظورہ شدہ 5قوانین بھی فروری2017سے جنوری2018کے دوران منظو ر ہو چکے ہیں۔مگر ڈرافٹ لیبر پالیسی کو موجودہ تمام منظور شدہ قوانین کے مطابق تجدید نہیں کی گئی۔انھوں نے بتایا کہ ڈرافٹ لیبر پالیسی سندھ کے جائزہ لیں تو اس میں آئین پاکستان، آئی ایل او کنوینشنز، اقوام متحدہ کنوینشنز اور یونیورسل ڈکلریشن آف ہیو رائٹس اور جی ایس پی پلس کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

وفاقی حکومت ہی ان بین الاقوامی کنوینشنز پر دستخط اور اطلاق کیلئے پابند ہے جبکہ اس کا صوبائی حکومت سندھ سے کوئی استحقاقی تعلق نہیں ہے۔انھوں نے خبردار کیا کہ جنرل اور ایکسپورٹ انڈسٹری سب سے ذیادہ ملازمت کے مواقع فراہم کرتی ہے جن میں سب سے ذیادہ ناخواندہ خواتین ورکرز کام کرتی ہیں۔ لہٰذا تمام اسٹیک ہولڈرز کو مکمل طور پر اعتماد میں لیا جائے اور ان کی تجاویزکو پالیسی کا حصہ بنایا جائے بصورت ماضی کی طرح دیگر کئی انڈسٹرئیاں بھی دوسرے صوبوں یا ملک کے باہر منتقل ہو جائیں گی اور ہزاروں شہری ملازمتوں کے مواقعوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔

لہٰذا حکومت سندھ تمام انڈسٹرئیل ٹائون اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز کو فوری طور پر اعتماد میں لے ، ان کے تحفظات دور کرے اور ان کی تجاویز کو لیبر پالیسی کا حصہ بنائے۔

متعلقہ عنوان :