بلوچستان میں سیاسی دھچکے کے باوجود مسلم لیگ ( ن) 18 سال بعد سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بنے کو تیار

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 5 فروری 2018 16:18

بلوچستان میں سیاسی دھچکے کے باوجود مسلم لیگ ( ن) 18 سال بعد سینیٹ میں ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 فروری۔2018ء) بلوچستان میں سیاسی دھچکے کے باوجود حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ( ن) 18 سال بعد سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بنے کو تیار ہے۔قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر تمام ایم پی ایز پارٹی پالیسی کے مطابق 3 مارچ کو ووٹ دیں گے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کو 104 ارکان کی نشستوں میں سے 30 سے زائد نشستیں ضرور ملیں گی۔

واضح رہے کہ 2 فروری 2018 کو الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کی 2 اور فاٹا کی 4 سینیٹ نشستوں کے علاوہ دیگر سینیٹ نشستوں پر انتخابات کے شیڈول کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس کے مطابق سینیٹ انتخابات کے لیے پولنگ 3 مارچ 2018 کو ہوگی، تاہم بعد ازاں اتوار 4 فروری کو الیکشن کمیشن کی جانب سے وفاقی دارالحکومت کی دو نشستوں پر بھی انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا گیا تھا، جس کے مطابق ان نشستوں پر بھی انتخاب 3 مارچ کو ہی ہوں گے۔

(جاری ہے)

انتخابی شیڈول کے مطابق 52 میں سے 48 سینیٹز کا انتخاب 3 مارچ کو ہوگا، جس میں پنجاب اور سندھ سے12 ، 12 جبکہ خبیر پختونخوا اور بلوچستان سے بھی 11، 11 سینیٹرز منتخب ہوں گے جبکہ اسلام آباد سے 2 سینیٹز کا انتخاب کیا جائے گا۔سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ بلوچستان کے علاوہ دیگر صوبوں میں سینیٹ کے نتائج گزشتہ انتخابات کی طرح رہیں گے اور اس میں کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔

بلوچستان میں پیچیدہ اور کثیر جہتی سیاست کے باعث سینیٹ انتخابات کے نتائج کی پیش گوئی کرنا ہمیشہ مشکل رہا ہے کیونکہ وہاں کے آزاد امیدواروں کے ہمیشہ اپنے ذاتی اثر و رسوخ اور مبینہ طور پر ووٹ خریدنے کے باعث جیتنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں جبکہ بلوچستان میں حکومت کی حالیہ تبدیلی کے باعث سیاسی ماہرین کے لیے یہ مزید مشکل ہوگیا ہے کہ وہ نتائج کے حوالے سے کوئی پیش گوئی کریں۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا خیال ہے کہ وہ پنجاب میں خواتین، ٹیکنوکریٹ اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سمیت تمام 12 نشستیں جیت کر کلین سوئپ کرے گی کیونکہ صوبائی اسمبلی میں 371 ارکان میں سے 310 ایم پی ایز مسلم لیگ (ن) سے ہیں جبکہ 30 رکن اسمبلیوں کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔تاہم کچھ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں اتفاق رائے سے امیدوار لانے اور مسلم لیگ (ن) کے کچھ ایم پی ایز کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو وہ پنجاب سے سینیٹ کی ایک نشست جیت سکتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) اسلام آباد کی دونوں نشستیں جیتنے کے لیے تیار ہے کیونکہ سینیٹر مشاہد حسین سید جو مسلم لیگ (ق) کی نشست سے مارچ میں بطور سینیٹر ریٹائرڈہورہے ہیں، وہ دوبارہ اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹر بننے کو تیار ہیں۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹز کی تعداد 27 ہے، جن میں سے 9 آئندہ ماہ مارچ میں ریٹائرڈ ہورہے ہیں اور حکمران جماعت کو امید ہے کہ وہ کم از کم 15 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگی اور ایوان بالا میں اپنے ارکان کی تعداد 33 تک پہنچا دے گی۔

اس کے علاوہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں (ن) لیگ کے 16 ایم پی ایز ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ اس صوبے سے سینیٹ کی ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہوں گے۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ق) اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے کیونکہ ان کی پارٹی سینیٹ سے ختم ہونے کے دہانے پر ہے اور ان کے چاروں سینیٹرز 11 مارچ کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور تمام صوبائی اور قومی اسمبلی میں پارٹی کی پوزیشن کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ق) سینیٹ انتخابات میں کوئی نشست جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔

ادھر پاکستان تحریک انصاف جسے 2015 میں پہلی بار سینیٹ میں نمائندگی حاصل ہوئی تھی وہ مارچ کے انتخا بات کے بعد اپنی طاقت کو دوگنا کرنے کے لیے پر امید ہے، پی ٹی آئی خبیر پختونخوا اسمبلی کی 11 میں سے 6 نشستیں جیتنے کی امید رکھتی ہے جبکہ حکمران جماعت کے ایم پی ایز کی تعداد 61 ہے۔صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے اتحادی ہونے کے باعث اس بات کا بھی امکان ہے کہ خیبرپختونخوا سے جماعت اسلامی بھی سینیٹ کی ایک نشست حاصل کرسکے گی۔

ان دونوں جماعتوں کے علاوہ خیبرپختونخوا میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماءاسلام ( ف) کو بھی ایک ایک نشت ملنے کا امکان ہے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور قومی وطن پارٹی کی جانب سے کوئی بھی نشست حاصل کرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔سینیٹ انتخابات میں نشستوں کے حوالے سے بات کی جائے تو پیپلز پارٹی سندھ کی 12 نشستوں میں سے 8 نشستیں جیتنے کے لیے پر امید ہے کیونکہ صوبائی اسمبلی میں 168 ارکان میں 94 ایم پی ایز صوبائی حکمران جماعت کی حامی ہیں۔

تاہم سندھ میں سینیٹ کی باقی 4 نشستوں پر دلچسپ مقابلہ ہوسکتا ہے کیونکہ ایم کیو ایم کئی دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے اور صوبائی اسمبلی میں ان کے ایم پی ایز کی تعداد 50 ہے اور اگر یہ سب فاروق ستار کی قیادت میں متحد رہتے ہیں تو سینیٹ کی 4 نشستیں آرام سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ سینیٹ میں نمائندگی کی بات کی جائے تو پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان ہونے والا ہے کیونکہ اس کے 26 سینیٹز میں سے 18 سینیٹز مارچ میں ریٹائر ہورہے ہیں اور آئندہ سینیٹ انتخابات میں انہیں 9 سینیٹ کی نشستیں جیتنے کی امید ہے جس کے بعد ایوان بالا میں ان کی نمائندگی کم ہو کر 17 ارکان پر رہ جائے گی۔

متعلقہ عنوان :