پاکستان میں 70 سالوں میں سے 30 سال 4 آمروں کی حکمرانی رہی جبکہ ہر منتخب جمہوری وزیراعظم کے حصے میں 2 سال آئے ہیں اس تلخ تاریخ کے باوجود میں کامل یقین سے کہتا ہوں جمہوریت ہی ہمارا روشن مستقبل ہے

سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کا’’ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب

جمعہ 2 فروری 2018 22:54

پاکستان میں 70 سالوں میں سے 30 سال 4 آمروں کی حکمرانی رہی جبکہ ہر منتخب ..
کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 فروری2018ء) سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں 70 سالوں میں سے 30 سال 4 آمروں کی حکمرانی رہی ہے جبکہ ہر منتخب جمہوری وزیراعظم کے حصے میں 2 سال آئے ہیں اس تلخ تاریخ کے باوجود میں کامل یقین سے کہتا ہوں جمہوریت ہی ہمارا روشن مستقبل ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سول سوسائٹی کی جانب سے مقامی ہوٹل میں: پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل : کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

محمد نواز شریف نے کہا کہ 70 سال ہوگئے ہیں لیکن جمہوریت کا مستقبل آج بھی سوالیہ نشان کیوں ہے اور اس طرح کے سیمینار کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کے چاروں اطراف گرد منڈلا رہی ہے جس نے جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا اور جمہوریت پر پے در پے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پہلے وزیراعظم کو قتل کیا گیا۔

جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت ختم کر دی اور امریکہ سے محمد علی بوگرا کو وزیراعظم بنایا یہاں سے جمہوریت کو اپنے گھر کی لونڈی بنانے کی ابتداء ہوئی جو آج بھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولوی تمیزوالدین کے گھر کا گھیرائو کیا گیا وہ اپنے گھر کے پچھلے دروازے سے رکشہ میں بیٹھ کر سندھ ہائی کورٹ پہنچے اور جمہوریت پر حملے کو کالعدم قرار دیا گیا لیکن جسٹس منیر نے حملے کو درست قرار دیا اور یہاں سے نظریہ ضرورت ایجاد ہوا۔

نواز شریف نے کہا کہ جب بھی جمہوریت نے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی، کوئی مقبول سیاسی قیادت یا قوت ابھری تو جمہوریت پر کلہاڑا چلایا گیا۔انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری عدلیہ کے ایک حصے نے آمروں کا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ بڑی مشکل سی 1956ء میں پہلا آئین بنا 1958ء میں اس آئین کو پامال کرتے ہوئے مارشل لاء لگایا گیا اور جسٹس منیر نے مارشل لاء کو درست قرار دیا اور ایک نیا اضافہ بھی کیاکہ ضرورت اس کام کو ضروری قرار دیتی ہے جو بصورت دیگر غیر قانونی عمل ہوتا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ ایک کامیاب انقلاب اپنا جواز آپ ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1999ء میں جب ہماری حکومت ہٹائی گئی تو اس وقت بعض ججوں نے آمر سے کہا کہ آپ نے قوم پر احسان کیا ہے اور نا صرف اس کی حکومت کو جائز قرار دیا گیا بلکہ آئین میں تبدیلی کا اختیاربھی دیا گیا جو خود عدالت کے پاس نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ 1999ء میں ہماری جمہوری حکومت ختم کر دی گئی جس پر جسٹس سعید الزمان صدیقی سے آمر نے اپنی مرضی کا فیصلہ لینا چاہا مگر انہوں نے انکار کیا اور پی سی او لایا گیا۔

ہم جسٹس سعیدالزمان صدیقی جیسے ججوں کوسلام پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو اب تک ہونے والے نقصان میں پی سی او کا بہت بڑا کردار ہے۔ انہون نے کہا کہ اب پارلیمنٹ کو سخت فیصلے کرنے ہوں گے ہماری حکومت کے خلاف جسٹس ارشاد حسن خان نے پھر آمر کا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ یحییٰ خان کے دور میں پہلی مرتبہ عاصمہ جیلانی کیس میں جسٹس حمود الرحمٰن نے نظریہ ضرورت اور کامیاب انقلاب کی تھیوری کو مسترد کیا۔

انہوں نے کہا کہ لوگ حمود الرحمٰن کمیشن اور فیصلے کی بات نہیں کرتے عدلیہ کے ایک حصہ نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے، اس ماحول کی وجہ سے پاکستان میں ایک وزیراعظم بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے انتخاباب کے حوالے سے کیا کچھ نہیں کیا گیا اور بلوچستان میں کیا کچھ ہوا سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تلخ تاریخ کے باوجود میں کامل یقین سے کہتا ہوں جمہوریت ہی ہمارا روشن مستقبل ہے لاکھ کوشش کے باوجود جمہوریت کو دفن نہیں کیا جا سکا۔

انہوں نے کہا کہ جمہوریت پر بار بار حملوں کے بعد ہماری جمہوریت سخت جان ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو ہمیشہ جمہوری دور میں ہی فائدہ ہوا اور نقصان آمروں کے ادوار میں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مشرف کو غداری کیس میں سزا تو نہیں ملی مگر تاریخ کا پہلا آمر ہے جو ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ہر تاثر سے ہٹ کر جمہوریت کے قافلے کا ساتھ دیں، جمہوریت ہی وفاق کی مختلف اکائیوں کے مابین باہم تعلق، سرحدوں کے دفاع ملک کی ترقی و استحکام کی ضامن ہے۔