وزیراعظم کا عہدہ ،روز مرہ کے انتظامات مفلوج ہو گئے ،ریاست کا ایک ستون دوسرے کو مفلوج کردے تو نظام کیسے چلے گا، محمد نواز شریف

عدالت نے وزیراعظم کے منصب کی توہین کی ،ایک کمیشن قائم کیا جائے جو پاناما ،عمران اور جہانگیر ترین کیسزکا جائزہ لے،بدقسمتی سے ہماری عدلیہ نے سیاستدانوں کیخلاف تو فیصلے دیئے لیکن آمر ان کو عزیز رہے ہیں عدلیہ بحالی کے بعد اب عدل بحالی کی تحریک چلائینگے، کیا پارلیمنٹ کے اختیار کیلئے عدلیہ سے مشورہ لینا ضروری ہوگا،سابق وزیراعظم کا وکلاء کی تقریب سے خطاب،سابق صدر سپریم کورٹ بار یاسین آزاد کا مسلم لیگ (ن)میں شمولیت کا اعلان

جمعہ 2 فروری 2018 22:31

وزیراعظم کا عہدہ ،روز مرہ کے انتظامات مفلوج ہو گئے ،ریاست کا ایک ستون ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 فروری2018ء) مسلم لیگ (ن) کے صدر اورسابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ آج وزیراعظم کا عہدہ اور روز مرہ کے انتظامات مفلوج ہو گئے ہیں ریاست کا ایک ستون دوسرے کو مفلوج کردے تو نظام کیسے چلے گا، عدالت نے وزیراعظم کے منصب کی توہین کی ہے ،میرے لیے گارڈز فادر سسلین مافیا کے االفاظ استعمال کیے گئے ،ایک جج نے کہا کہ وزیراعظم کیلئے اڈیالہ جیل میں جگہ خالی ہے،عدلیہ دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھے ،عدلیہ کے نزدیک عمران خان تو صادق اور امین ٹھہرے اور سارا ملبہ مجھ پر ڈال دیا گیا،ایک کمیشن قائم کیا جائے جو پاناما ،عمران اور جہانگیر ترین کیسزسمیت تمام سیاسی مقدمات کا تقابلی جائزہ لے ،تینوں مقدمات میں ایک جیسا عدل نہیں کیا گیا ،بدقسمتی سے ہماری عدلیہ نے سیاستدانوں کے خلاف تو فیصلے دیئے لیکن آمر ان کو عزیز رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

عدلیہ بحالی کی تحریک چند ججز کی بحالی کیلئے نہیں تھی ،عدلیہ تو بحال ہوگئی لیکن عوام کو انصاف نہیں ملا ،عدل کی تابناک صبح نہیں آئی ،اب عدل بحالی کی تحریک چلائینگے ۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے جمعہ کو وکلا کمیونٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا ۔

تقریب سے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔نواز شریف نے کہا کہ میری خوقسمتی ہے کہ یاسین آزاد سمیت 40وکلا نے مسلم لیگ ن نے شمولیت اختیار کی ہے ۔ مجھے یقین ہے یہ ہماری جماعت اور ملک کے لیے بہت بڑا اثاثہ ثابت ہونگے ۔ مجھ سمیت میرے تمام ساتھی اس شمولیت پر بہت خوش ہیں ۔انہوںنے کہا کہ وکلا انسانی معاشرے کا اہم حصہ ہیں ۔

وکلا انصاف کا محور ہوتے ہیں ۔ قانون کی بالا دستی میں وکلا کا اہم کردار ہے ۔علامہ اقبال کے خواب کو تعبیر دینے والے شخص قائد اعظم بھی ایک وکیل تھے ۔ میں بچپن سے دیکھتا ہوں کہ وکلا ہر تحریک میں پیش پیش رہے ۔انہوںنے کہا کہ پرویز مشرف کے دورمیں وکلا نے اہم کردار ادا کیا ۔: عدلیہ بحالی مہم میں ہمارا مقصد چند ججز کی بحالی نہیں تھی ۔ ہمارا مقصد آمروں کو یہ احساس دلانا تھا کہ کسی آمر کو حق نہیں کہ عدلیہ پر اپنے فیصلے لاگو کرے ۔

ہم عدلیہ بحالی میں تو کامیاب ہوگئے مگر عدل کی تابناک صبح ابھی بھی طلوع نہیں ہوئی ۔ اس قوم کو میڈیا اور وکلا کی تحریکوں کے جو ثمرات ملنے چائیے تھے وہ ابھی تک نہیں ملے ہیں ۔نواز شریف نے کہا کہ انصاف کے لیے ٹھوکریں کھاتی خلق خدا تھک گئی ہے ۔ صرف سپریم کورٹ میں اٹھارہ ہزار مقدمات زیر التوا ہیں۔انہوںنے کہا کہ سیاسی نوعیت کے مقدمات عدلیہ کو بڑے عزیز رہے ہیں ۔

ان مقدمات کے فیصلے بڑی تیزی سے کئے گئے ۔ ان فیصلوں پر وکلا کو نظر ثانی کرنی چائیے کہِ کہیں یہ حدود سے بڑھ کر تو نہیں کیے گئے ہیں ۔ایک کمیشن قائم کیا جائے جو پاناما ،عمران اور جہانگیر ترین کیسز کا تقابلی جائزہ لے ۔تینوں مقدمات میں ایک جیسا عدل نہیں کیا گیا ۔نواز شریف نے کہا کہ آج وزیر اعظم کا عہدہ مفلوج ہوچکا ہے ۔ وفاقی کابینہ کی حیثیت یہ رہ گئی ہے کہ وہ کسی نظامی عہدیدار کو منتخب بھی نہیں کرسکتے ۔

کیا پارلیمنٹ کے اختیار کے لئے عدلیہ سے مشورہ لینا ضروری ہوگا۔یہ اختیار بھی ختم کردیا گیا ہے کہ کوئی وزیر اعلی یاوزیر اعظم جوڈیشل کمیشن بنا سکے۔ عدلیہ کا عزت اور احترام بھی بہت ضروری ہے ۔ عدلیہ دوسروں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھے ۔ عدلیہ کے ایک جج نے کہا کہ وزیر اعظم کو کہا کہ اڈیالہ جیل میں جگہ خالی ہے ۔ یہ میری نہیں وزیر اعظم کے عہدے کی توہین ہے ۔

میرے لئے گارڈ فادر اور سسلین مافیا کے الفاظ استعمال کیے گئے ۔عدلیہ کے نزدیک عمران خان تو صادق اور امین ٹھہرے اور سارا ملبہ مجھ پر ڈال دیا گیا۔ہماری عدالیہ نے ہمیشہ انصاف کے منافی رویہ اختیار کیا ہے ۔آمروں کو آئین میں چیڑ پھاڑ کی اجازت دی گئی ۔کس طرح سے مشرف کو اختیار دیئے گئے کیا آج تک کسی نے اس کی خبر لی ۔یہ اختیار کبھی منتخب نمائندوں کو نہیں ملے ۔

سیاسی کیس عدلیہ کو بڑے عزیز لگتے ہیں ۔دیکھنا ہوگا کہ کیا تین ستونوں میں سے کوئی ستون آگے تو نہیں نکل گیا ۔ریاست کا ایک ستون دوسرے کو مفلوج کردے تو نظام کیسے چلے گا۔ میاںنواز شریف نے کہا کہ عدالت کو حکم امتناع کے پیمانوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ بعض چینل بھی حکم امتناع پر چل رہے ہیں لاہور اورنج ٹرین کے منصوبے کو سپریم کورٹ نے اپریل 2016میں روک دیا ۔

آٹھ مہینے تک فیصلہ محفوظ کیا گیا اور عوام کو سہولت سے محروم رکھا گیا اور منصوبے کی لاگت میں بھی اضافہ ہوا ۔انہوںنے کہا کہ ہمیں دوسرے ممالک کے عدلیہ کے نظام کا مطالعہ کرنا چائیے ۔ عدلیہ کی غیر جانب داری ہی اس کی عزت و احترام کو یقینی بنا سکتی ہے ۔ اگر عدلیہ کے فیصلوں پر سوال اٹھنے لگے تو سمجھ لیں کہ کسی سے بھول ضرور ہوئی ہے اور عدلیہ کے فیصلوں میں بھول چوک ملکی نظام کے لئے مضر ثابت ہوتی ہے۔

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کامران مرتضی نے کہا کہ آج 1999والے حالات نہیں ہیں ۔سیاسی جماعتیں ماضی کی طرح سمجھوتہ نہیں کرپائیں گی ۔سیاسی جماعتوں سے عوام اس وقت بددل ہوتے ہیں جب وہ بعض امور پر سمجھوتہ کرتے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ میری نواز شریف سے گذارش ہے کہ آئندہ اقتدار ملے تو اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ نہ کریں ۔آپ نے ایسا کیا تو ملک میں حقیقی جمہوریت نافذ ہوجائے گی ۔

مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے والے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر محمد یاسین آزاد نے کہا کہ میں نے بار کی سطح پر بہت سیاست کرلی ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ صرف نواز لیگ ہی پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی ترجمان کرتی ہے۔انہوںنے کہا کہ اس ملک کی بگاڑ 1954 سے شروع کردی گئی تھی جو ابھی تک چل رہی ہے ۔جب بھی کوئی منتخب حکومت آتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ کا فوکل پرسن آکر حکومت سے بات کرتا ہے ۔

سیاست میں اختلاف رائے جمہوریت کی نشانی ہے ۔انہوںنے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی جماعت نے اپنا پانچ سالہ دور مکمل کیا اور پرامن طریقے سے اقتدار منتقل کیا گیا ۔حکومت کو اس کی مدت پوری کرنی دینی چاہیے ۔کسی ایسے ادارے کو وزیراعظم کو ہٹانے کا حق نہیں جو 22کروڑ رعوام کی نمائندگی نہیں کرتا ۔پہلے وزیراعظم کو بھی توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرا کر گھر بھیجا گیا ۔

اسی طرح میاں نواز شریف کو بھی ایک غیر ضروری وجہ کے تحت نااہل قرار دیا گیا ۔انہوںنے کہا کہ عدلیہ کو قانون سازی کا کوئی حق نہیں ہے ۔پہلے وہ اپنے ادارے کو ٹھیک کریں اور پھر دوسرے اداروں کے لیے کام کریں ۔یاسین آزاد نے کہا کہ ملک میں دھرنوں کے ذریعہ جو سیاسی کلچر متعارف کرایا گیا ہے وہ حدود کے خلاف تھا ۔جب اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا اور ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹانے کی بات کی گئی تو اس وقت ملک بھر میں وکلا نے ہڑتال کی تھی ۔

انہوںنے کہا کہ افسوسناک بات ہے کہ لوگ پارلیمنٹ کا حصہ بننے کی کوشش کرتے ہیں وہی پارلیمنٹ پر لعنت بھجتے ہیں ۔ایسے آدمی کو منتخب کیسے کیا جاسکتا ہے جو اپنے ہی ادارے پر لعنت بھیجتا ہے ۔پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے والے کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔