اسلام آباد، کامسیٹس کے ہزاروں ملازمین نے مجوزہ’’ کامسیٹس یونیورسٹی ایکٹ‘‘کو غیر جمہوری ،

ظالمانہ اور کالا قانون قرار دیا سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی سے فوری مداخلت کی اپیل ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی ذاتی مبینہ طور پر مفادات کی خاطر اس ظالمانہ بل کو منظور کروانے کیلئے کوششیں کررہے ہیں،ملازمین کا الزام

جمعہ 2 فروری 2018 22:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 02 فروری2018ء) پاکستان کی بین االاقوامی معیار کی یونیورسٹی کامسیٹس کے ہزاروں ملازمین نے مجوزہ’’ کامسیٹس یونیورسٹی ایکٹ‘‘کو غیر جمہوری ، ظالمانہ اور کالا قانون قرار دیتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے۔ ان ملازمین نے الزام عائد کیا ہے کہ مبینہ طور پر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی ذاتی مفادات کی خاطر اس ظالمانہ بل کو منظور کروانے کیلئے کوششیں کررہے ہیں۔

ملازمین کے نمائندہ فورمز نے خبر دار کیا ہے کہ اگر سینٹ کی طرح قومی اسمبلی نے بھی مجوزہ ’’کامسیٹس ایکٹ ‘‘کو اسی طرح منظور کرلیا تو ہزاروں ملازمین اور اساتذہ ملک بھر میں شدید احتجاج کریں گے۔

(جاری ہے)

کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فیکلٹی ممبرز نے 22جنوری 2016کو سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز خان صادق کے نام اپنے خط مین مجوزہ ایکٹ میں پانچ بڑی ترامیم کا مطالبہ کیاہے اور الزام عائد کیا ہے کہ مبینہ طور پر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی نے یونیورسٹی کے کلیدی عہدوں پر براجمان افراد کی ملی بھگت سے مجوزہ کامسیٹس یونیورسٹی ایکٹ کو پہلے براہ راست سینٹ میں پیش کیا اور اب اسے قومی اسمبلی سے منطور کروانے کیلئے کوشاں ہیں۔

جب اپوزیشن ارکان نے اس مسئلے پر تنقید کی تو ڈپٹی سپیکر نے یہ معاملہ ہائیر ایجوکیشن کی کمیٹی میں بھجوانے کے بجائے اسے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔ یونیورسٹی کے بعض سینئر ملازمین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی ایبٹ آباد اور اسلام آباد کیمپس میں من پسند افراد کو بھرتی کروا رہے ہیں جبکہ ساتھ ساتھ انہوں نے ان کیمپس کی کینٹین اور مختلف کاموں کے ٹھیکے بھی اپنے من پسند افراد کو دلوائے ہیںً۔

کامسیٹس یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیداران ڈپٹی سپیکر سے اپنی مرضی کا ایکٹ منظور کروانے کیلئے ڈپٹی سپیکر کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی کے نام خط میں ملازمین نے تین نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے۔ جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام ملازمین کو ریگولر کیاجائے اور ان کی ملازمتوںکو تحفظ دینے کی شق ایکٹ میں شامل کیجائے۔ ملازمین کو بی پی ایس کے مطابق جی پی فنڈ میں شامل کرنے کی شق بھی ایکٹ میں شامل کی جائے۔

یونیورسٹی کے تمام سات کیمپس کے منتخب نمائندوں کو فیصلہ ساز فورمزسینٹ، اسٹینڈنگ کمیٹی ، فنانس کمیٹی اور اکیڈمک اکیڈمی میں نمائندگی دی جائے۔ کامسیٹس یونیورسٹی کے ملازمین کی حق تلفی کے خلا ف فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن بھی میدان میں آگئی ہے اور انہوں نے چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری طارق بشیر چیمہ کو خط لکھ کر مجوزہ ایکٹ میں ملازمین کش شقوں کو ختم کرنے اور ملازمین کے حقوق کے تحفظ کی شقوں کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔

دونوں نمائندہ تنظیموں نے صدر ، وزیر اعظم ، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اور اپوزیشن لیڈر سے بھی معاملے کا فوری نوٹس لینے کی اپیل کی ہے اور انہیں مجوزہ بل کی کاپیاں اور اپنے مطالبات کی فہرست بھجوادی ہے۔اس حوالے سے مارشل سیل نے جب ڈپٹی قومی اسمبلی جاوید مرتضی عباسی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا تو انہوں نے کہاکہ میرا ا سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ۔

یہ مجوزہ ایکٹ کامسیٹس ادارے نے بنا کر بھیجا ہے ۔ انہوں نے اسے اکیلے سینٹ میں بھیجا یہ ان کی مرضی ہے۔ یہ طریقہ کار بھی بالکل درست ہے ۔ جہاں تک ملامتوں اور ٹھیکوں کا الزام ہے تو میرے چار آدمی بھی نکل آئیں تو مستعفی ہوجائوں گا ۔ ایک سوال کے جواب میں کامسیٹس یونیورسٹی ایکٹ کا بل سائنس و ٹیکنالوجی کی قائمہ کمیٹی میں کیوں بھجوایا گا اسے تو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی قائمہ کمیٹی کے سپرد ہونا تھا تو انہوں نے کہا کہ یہ یونیورسٹی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کے ماتحت ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اپوزیشن والے اعتراض کرتے ہیں تو ان کی مرضی۔