پی سی آر ڈبلیو آر کی بوتل بند پانی کے مختلف برانڈز کی سہ ماہی تجزیاتی رپورٹ برائے اکتوبر تا دسمبر 2017 شائع

اسلام آباد ،راولپنڈی،سیالکوٹ، پشاور، ملتان، لاہور ، بہاولپور، ٹنڈوجام، کوئٹہ اور کراچی سے بوتل بند/ منرل پانی کے 131 برانڈز کے نمونے حاصل کیے گئے 12 برانڈز (آئی پیور، ایکوا نیشنل، ایس این پیور ڈرنکنگ واٹر، سنو ڈپ، اورین، آبِ خیبر، اوریبل پیور واٹر، لائف واٹر، اطہر، اوسس پلس، ہیون H2O ، اور فینو) برانڈز کے نمونے کیمیائی طور اور جراثیمی طور پر آلودہ پائے گئے

جمعہ 2 فروری 2018 20:42

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 02 فروری2018ء) پینے کے صاف اور محفوظ پانی کی کمی کی وجہ سے ملک بھر میں بوتلوں میں بند پانی کی صنعت تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ پاکستان کونسل برائے تحقیقاتِ آبی وسائل، حکومتِ پاکستان ، وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کی ہدایت پر بوتلوں میں بند پانی کی کوالٹی کی مانیٹرنگ ایجنسی کو طور پر کام کر رہی ہے۔

ہر سہ ماہی کے اختتام پر پینے کے بوتل بند پانی کے مختلف برانڈزکی تجزیاتی رپورٹ پی سی آر ڈبلیو آر کی ویب سائٹ پر اور میڈیا میں شائع کر دی جاتی ہے ۔اکتوبر تا دسمبر 2017 کی سہ ماہی میں اسلام آباد ،راولپنڈی،سیالکوٹ، پشاور، ملتان، لاہور ، بہاولپور، ٹنڈوجام، کوئٹہ اور کراچی سے بوتل بند/ منرل پانی کے 131 برانڈز کے نمونے حاصل کیے گئے ۔

(جاری ہے)

ان نمونوں کا پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) کے تجویز کردہ معیار کے مطابق تجزیہ کیا گیا۔

اس تجزیے کے مطابق 12 برانڈز (آئی پیور، ایکوا نیشنل، ایس این پیور ڈرنکنگ واٹر، سنو ڈپ، اورین، آبِ خیبر، اوریبل پیور واٹر، لائف واٹر، اطہر، اوسس پلس، ہیون H2O ، اور فینو) برانڈز کے نمونے کیمیائی طور اور جراثیمی طور پر آلودہ پائے گئے۔ ان میں2 نمونوں (ایکوا نیشنل اور ایس این پیور ڈرنکنگ واٹر)میں سنکھیا کی مقدار سٹینڈرڈ سے زیادہ (17.5 پی پی بی سے لیکر 35.5 پی پی بی) تک تھی، جبکہ پینے کہ پانی میں اس کی حدِ مقدار صرف 10 پی پی بی تک ہے۔

پینے کے پانی میں سنکھیا کی زیادہ مقدار کی موجودگی بے حد مضرِ صحت ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے پھیپڑوں ، مثانے، جلد، پراسٹیٹ، گردے، ناک اور جگر کا کینسر ہو سکتا ہے اس کے علاوہ بلڈ پریشر ، شوگر، گردے اور دل کی بیماریاں، پیدائشی نقائص اور بلیک فٹ جیسی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں۔ جبکہ آلودہ برانڈز میں سے 7 نمونے (آبِ خیبر، اوریبل پیورواٹر، لائف واٹر، اطہر، اوسس پلس، ہیون H2O ، اور فینو) جراثیم سے آلودہ پایا گیا جس کی وجہ سے ہیضہ، ڈائریا، پیچش، ٹائفائیڈ اور یرقان کی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔

2 برانڈز (سنو ڈپ اور اورین)کے نمونوں میں سوڈیم کی مقدار سٹینڈرڈ سے زیادہ (60 سے لے کی110 پی پی ایم) پائی گئی جبکہ پینے کہ پانی میں اس کی حدِ مقدار صرف 50 پی پی ایم تک ہے۔ جبکہ 1 برانڈ (سنو ڈپ) کے نمونوں میں پوٹاشیم اور ٹی ڈی ایس کی مقدار سٹینڈرڈ سے زیادہ پائی گئی۔