ملک میں جب بھی جمہوریت پر یلغار ہوئی عدلیہ نے آمروں کا ساتھ دیا،

آج بھی سیاسی مطلع پوری طرح سے صاف نہیں،محمد نواز شریف ل بعد بھی جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے سوالیہ نشان ہے،نظریہ ضرورت نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے،سابق وزیراعظم میں ایک جج نے کہا اچھاہوا نوازشریف کا تختہ الٹ دیا مشرف کو وہ اختیار دیدیا گیا وہ آئین کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے،سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں، ملک میں جمہوری نظام کے لئے ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے کے لئے ایک مضبوط ڈسپلن کی ضرورت ہے،محمود خان اچکزئی ، جمہوریت کے معنی الیکشن نہیں طالع آزمائوں نے بار بار مارشل لاء لگا کر جمہوریت کے معنی اور مقصد تبدیل کردیئے،سمینار سے حاصل بزنجو ،شاہ محمد شاہ ،آئی اے رحمن اور دیگر کا خطاب

جمعہ 2 فروری 2018 17:43

ملک میں جب بھی جمہوریت پر یلغار ہوئی عدلیہ نے آمروں کا ساتھ دیا،
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 فروری2018ء) مسلم لیگ ن کے صدر و سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں جب بھی جمہوریت پر یلغار ہوئی عدلیہ نے آمروں کا ساتھ دیا، آج بھی سیاسی مطلع پوری طرح سے صاف نہیں ہے ہر طرف گرد وغبار ہے، 70سال گزرنے کے بعد بھی جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے سوالیہ نشان ہے،نظریہ ضرورت نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اس ہی کی وجہ سے جمہوریت کو منزل حاصل کرنے سے روکا گیا پارلیمنٹ میں دوبارہ آنے پر پی سی او ججوں کے خلاف سخت فیصلے کریں گے،99ء میں ایک جج نے کہا اچھاہوا نواشریف کا تختہ الٹ دیا مشرف کو وہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ آئین کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے، مشرف پہلا ڈکٹیٹر ہے جسے ہم عدلیہ کے کٹہرے میں لائے جو ملک سے فرار ہوا اور پاکستان کی سرزمین پر واپسی کے حوالے سے خوف زدہ ہے،ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعہ کو مقامی ہوٹل میں مسلم لیگ ن سندھ کی جانب سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا عنوان تھاپاکستان میں جمہوریت کا مستقبل ٰ۔

(جاری ہے)

اس موقع پرمسلم لیگ ن سندھ کے سیکریٹری جنرل شاہ محمد شاہ،صحافی و دانشور آئی اے رحمان،مسلم لیگ فنکشنل کی رہنما مہتاب اکبر راشدی،سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما غلام شاہ،عورت فائونڈیشن کی انیسہ ہارون،نیشنل پارٹی کے صدر وفاقی وزیر سنیٹر میر حاصل بزنجو،پختونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے خطاب کیا ، جبکہ اس موقع پر گورنر سندھ محمد زبیر، وفاقی وزراء مشاہد اللہ خان، خواجہ سعد رفیق بھی موجود تھے۔

نواز شریف نے مزید کہا کہ نواز شریف نے کہا کہ 70سال گزرنے کے باوجو د بھی جمہوریت کا مستقبل ہمارے لئے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ آج بھی وس وسے اور اندیشے پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں ہم جمہوریت کے مستقبل کی گواہی کیوں نہیں دے سکتے۔ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ آج بھی ماحول میں ہر طرف گرد و غبار ہے اس ہی وجہ سے جمہوریت منزل پر نہیں پہنچ پائی، اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو معلوم ہوگا کہ اس کی شروعات اس وقت شروع ہوئی جب گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو ہٹاہا گیا اور یہیں سے جمہوریت کو گھر کی لونڈی بنانا شروع کیا گیا، اس کے بعد غلام محمدنے ایوب خان کی ملازمت میں توسیع کرکے اپنے عزائم میں انھیں شریک کیا۔

54ء میں گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی توڑی اور اراکین کو گھر بھیج دیا، اس وقت کے وزیر اعظم رکشہ میں بیٹھ کر ہائیکورٹ گئے اور ہائیکورٹ نے تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کو بحال کردیا لیکن فیڈرل کورٹ گورنر جنرل کے فیصلے کو درست قرار دے دیا۔ اور یہیں سے رسوائے زمانہ نظریہ ضرورت سامنے آیا۔ اس کے بعد جمہوریت پنپ نہیں سکی اس کی روایت اس وقت جسٹس منیر نے ڈالی اس کے بعد سے ہی جمہوریت کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیںکیا جاسکا،اور ہر مرتبہ ابھرتی ہوئی جمہوریت پر کلھاڑا چلایا جاتا رہا۔

فوجی آمر جمہوریت پر وار کرتے رہے عدلیہ کا ایک حصہ عوام کے بجائے آمروں کا ساتھ دیتا رہا۔56ء میں ملک کا آئین بنا لیکن 58ء میں اسے منسوخ کردیا گیا جب یہ معاملہ عدالت پہنچا توجسٹس منیر نے ایک بار پھر نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاء کا ساتھ دیا گیا۔ 1999ء میں میری حکومت کو جب ہٹاکر مارشل لاء لگایا گیا تو ایک جج نے اس وقت یہ بات کہی کہ بہت اچھا کیا کہ نواز شریف کا نختہ الٹ دیا گیاآپ نے یہ احسان کیا ہے۔

اور پرویز مشرف کو وہ ختیار دے دیا گیا جو ججوں کے پاس بھی نہیں تھا۔ اور اسے یہ ختیار دیا گیا کہ وہ آئین کے ساتھ جوچاہے سلوک کرے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت اس کام کو بھی قانونی بنا دیتی ہے جو غیر قانونی ہوتا ہے۔ یہ کیسی منطق ہے یہ کیسا ملک ہے، جسٹس منیر کی کامیاب انقلاب اور نظریہ ضرورت کی تھیوری عدلیہ کے ایک حصے کو پسند آئی۔

انھوں نے کہا کہ جب بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو بیگم نصرت بھٹو نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایااس وقت جسٹس انوارالحق تھے لیکن اس وقت بھی وہ فیصلہ آیا جو نظریہ ضرورت کے تحت تھا۔99ء میں جب میری حکومت کو ہٹایا گیا تو مسلم لیگ ن عدالت گئی اس وقت چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی پر بہت دبائو ڈالا گیا تاکہ وہ ڈکٹیٹر کے فیصلوں کی ضمانت دیں لیکن جسٹس سعید الزماں صدیقی مرحوم نے ڈکٹیٹر کے آگے جھکنے سے انکار کردیا میں ایسے ججوں کو سلوٹ اورسلام کرتا ہوں۔

انھوں نے کہا کہ یہاں محمود خان اچکزئی نے پی سی او ججوں کے بارے میں جو بات کہی میں سو فیصد اس کی حمایت کرتا ہوں۔پی سی او ججز نے ملک کو تباہی کی جانب ڈھکیلا، لیکن میں یہ بات کہتا ہوں کہ ہم لوگ جب پھر سے انشاء اللہ پارلیمنٹ میں اکٹھے ہوںگے توہم پی سی او ججوں کے خلاف سخت فیصلے کریں گے۔انھوں کی کہا کہ ہمیشہ پی سی او ججوں کی وجہ سے ڈکٹیٹروںکی جیت ہوئی آئین و جمہوریت کو شکست کا سامنا کرنا پڑاڈکٹیٹر یحیی خان کی وجہ سے ملک دو لخت ہواعاصمہ جیلانی کیس میں ڈکٹیٹر یحیی خان کو مسترد کردیا گیا اور اسے غاصب قرار دے دیا گیا۔

لیکن اس وقت تک وہ اپنے عہدے سے ہٹ چکا تھا۔نواز شریف نے کہا کہ ایک ایسا شخص جس نے آئین کو توڑا ایسے غاصب کیخلاف غداری کا مقدمہ چلنا چاہئے۔ اس ہی طرح مہم جوئی کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔عدلیہ کے ایک حصے نے جمہوری عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ 70سالوں میں چار آمروں نے 30سال حکومت کی ہے اورعوام سے ووٹ لیکر آنیوالوں نے اوسطا دو دو سال حکومت کی۔

ابتداء ہی سے جمہوریت کو اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہونے دیا گیا۔آمروںنے مقبول عوامی لیڈروں کو ہمیشہ ناپسند کیا ان کے مقابلے پر کمزور اور غیر مقبول سیاسی جماعتوں ان کی جگہ کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ نواز شریف نے کہا کہ پارلیمنٹ جس طوفان سے گزری ہے اس سے سب لوگ واقف ہیں،اب اس پارلیمنٹ کی مدت میں چار ماہ باقی رہ گئے ہیںبے یقینی کی سی صورتحال ہے، سینٹ کے الیکشن کے موقع پر دھند چھائی ہوئی ہے۔

بلوچستان میں کیا ہوا اس سے بھی سب واقف ہیں، ایک منتخب وزیر اعظم کو کس طرح سے ہٹایا گیااس سے بھی سب واقف ہیں۔انھوں نے کہا کہ ملک میں پہلی مرتبہ ہم ایک ڈکٹیٹر کو عدالت کے کٹہرے میں لائے اس سے قبل ہمیشہ سے عدلیہ اور آمروں کے سامنے سیاستدان کمزور رہے انھیں پھانسی پر لٹکایا گیا، ہائی جیکر قرار دیا گیا سیاستدانوں کے پورے پورے خاندانوں کو پریشان کیا گیا۔

جس ملک میں اس طرح کی آب و ہوا ہو وہاں جمہوریت کے پودے کو کیسے پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ میں نے اور بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت معاہدہ کیا اس معاہدے میں دوسرے سیاستدان بھی شامل تھے۔ یہ میثاق جمہوریت آج بھی اہم سیاسی منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس ناقابل رشک تاریخ کے باوجود میں یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ انشاء اللہ ملک میں جمہوریت کا مستقبل روشن و تابناک ہے۔

جمہوریت کو دفن نہیںکیا جاسکتا اب یہ سخت جان ہوچکی ہے۔ عوام میں سیاسی شعور آگیا ہے اور عوام بیدار ہوچکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں پہلی مرتبہ ہم ڈکٹیٹر مشرف کو عدالت کے کٹہرے میں لائے اسے سزا تو نہیں ملی لیکن وہ پہلا ڈکٹیر ہے جسے ملک سے فرار ہونا پڑا وہ اب اتنا خوف زدہ ہے کہ پاک سر زمین پر واپس اپنے قدم نہیں رکھ پارہا ہے۔انھوں نے کہا کہ میں وکلاء، اساتذہ، میڈیا، اور سیاستدانوں سے کہوں گا کہ وہ اس صورتحال میں اپنا کردار ادا کریں۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میں ملک کے وڈیروں ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں ، بلوچستان کے سرداروں سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا انھوں نے دین اسلام کے مطابق اپنی خواتین کو حقوق دیئے ہیں۔ اپنی جائیدادوں اور اثاثوں میں سے انھیں حصہ دیا ہے۔ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے۔دل پر ہاتھ رکھ بتائیں کیا ان تینوں باتوں پر عمل کیا جارہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک کے مقبول لیڈرنواز شریف ہیں، اور مسلم لیگ ملک کی سب سے بڑی جماعت بننے جارہی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ملک میں جمہوری نظام کے لئے ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے کے لئے ایک مضبوط ڈسپلن کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ مجھ پر وطن فروشی ، ملک دشمنی کے الزامات لگتے رہے ہیں اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا انھوں نے کہا کہ جب انگریزکے خلاف کوئی بول نہیں سکتا تھا ہم نے ہی ان کے خلاف تحریکیں چلائی تھیں۔

پاکستان اور جمہوریت کے لئے ہم نے بھی قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کی قیام کے سلسلے میں بنگالی، پشتون، پنجابی، سندھی ، بلوچ باہمی رضا مندی سے یکجا ہوئے تھے۔ آج بھی اس فیڈریشن کو چلانا چاہتے ہیں۔ دفعہ 144کے تحت یہاں سندھیوں، بلوچوں، پنجابیوں، پشتونوں، کے ساتھ ناانصافی کی گئی آئین کو روندھا گیا ہمیں ایسا پاکستان منظور نہیں۔سیاسی کارکنوں کو گولیاں اور کوڑے مارے گئے۔

آئین توڑنے والوں اور پھاڑنے والوں کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی، ہم ایسا پاکستان چاہتے ہیں جس میں آئین و قانون کی بالادستی ہو ، انھوں نے کہا کہ 12مئی کو کراچی میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی کیا اس موقع پر کسی جج نے کسی کو اس واقعہ کا ذمے دار ٹھیرایا، اس ناانصافیوں سے نفرتیں جنم لیتی ہیں جب کسی گھرمیں بھائیوں ، بہنوں کو انصاف نہ ملے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے یہاں تو نا انصافیوں کے ساتھ ملک کو چلایا جارہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سے ایسی قرار دادیں منظور کی جانی چاہئے کہ جن ججوں نے آمروں کے خلاف کھڑے ہوئے اور اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے انھیں ھیرو قرار دیا جائے۔ وفات پاجانے والوں کے بچوں کو ان کی تنخواہیں اور مراعات دی جائیں۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو سامنے لایا جائے یہ قوم کے بدترین لوگ ہیں ان سے تنخواہین اور تمام مراعات واپس لی جائیں۔

وفاقی وزیرو نیشنل پارٹی کے صدر میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ جمہوریت کے معنی الیکشن نہیں طالع آزمائوں نے بار بار مارشل لاء لگا کر جمہوریت کے معنی اور مقصد تبدیل کردیئے۔جمہوریت کے لئے ملک میںبہت زیادہ قربانیاں دی گئی ہیںشائد کسی اور ملک میں جمہوریت کے لئے اتنی قربانیاں نہیں دی گئی ہوں گی۔جمہوریت کی ہمیں ضرورت ہے لیکن اسے منزل تک نہیں پہنچنے دیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ بعض طاقتیں اس اتنظار میں رہتی ہیں کہ جمہوریت کب ڈی ریل ہوگی۔تاکہ وہ غیر جمہوری حکومت کا حصہ بن سکیں۔سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما غلام شاہ نے کہا کہ ملک میں بجٹ کا استعمال صحیح نہیں ہورہا جس کی وجہ سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے۔عورت فائونڈیشن کی انیسہ ہارون نے کہا کہ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ آج سول سوسائیٹی کو بھی یہاں بلایا گیا ہے اور اہمیت دی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ خواتین اور مردوں کے حقو ق ریاست کو برابری کی بنیاد پر دینے چاہیں۔مسلم لیگ فنکشنل کی رہنما اور رکن سندھ اسمبلی مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ جمہوریت کے سسٹم کو بچانے کی تو سب بات کر رہے ہیں لیکن کوئی یہ بات نہیں کرتا کہ کیا جمہوریت کے ثمرات عوام کو مل رہے ہیں۔آج بھی ہمارے ملک میں جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ نظام ہے جبکہ 70سالوں کی مدت قوموں کے بننے کے کافی وقت ہوتا ہے۔