سید خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس

ملک بھر کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں سالانہ 213 ارب روپے کے ٹیکنیکل اور بجلی چوری کے نقصانات کا سامنا ہے، پیپکو کی کمیٹی کو بریفنگ ایک ماہ میں ملک بھر سے 66کے وی کے گرڈ سٹیشن ختم کرنے بارے فریم ورک تشکیل دیکر رپورٹ پیش کی جائے، موسم سرما وگرما میں ملک بھر کے گھریلو صارفین کی بجلی چوری کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں، پی اے سی کی ہدایت

بدھ 31 جنوری 2018 20:48

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 جنوری2018ء) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کو پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) نے بتایا ہے کہ ملک بھر کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں سالانہ 213 ارب روپے کے ٹیکنیکل اور بجلی چوری کے نقصانات کا سامنا ہے، جبکہ پی اے سی نے پیپکو کو ہدایت کی ہے کہ ایک ماہ میں ملک بھر سے 66کے وی کے گرڈ سٹیشن ختم کرنے کے حوالے سے فریم ورک تشکیل دے کر رپورٹ پیش کی جائے اور موسم سرما اور موسم گرما میں ملک بھر کے گھریلو صارفین کی بجلی چوری کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں۔

پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو چیئرمین سید خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں کمیٹی اراکین شیخ رشید احمد، سید غلام مصطفی شاہ، مشاہد حسین سید، عاشق حسین گوپانگ، شیخ روحیل اصغر، راجہ جاوید اخلاص اور شاہدہ اختر علی کے علاوہ دیگر ارکان اور متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں جنرل منیجر پیپکو نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے مجموعی نقصانات کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ اس وقت ملک میں بجلی کی مجموعی طورپر 2 کروڑ 19لاکھ سے زائد صارفین جن میں 86 فیصد گھریلو اور 14 فیصد صنعتی و کمرشل صارفین ہیں۔

انہوں نے کہاکہ گھریلو صارفین 52 فیصد ، کمرشل 7.54 فیصد، صنعتی صارفین 28 فیصد اور ٹیوب ویل 10 فیصد بجلی اسعتمال کرتے ہیں۔ انہوںنے پی اے سی کو ملک بھر میں تقسیم کار کمپنیوں کے کمرشل ، گھریلو اور صنعتی صارفین کی تعداد ، بجلی کے استعمال اور نقصانات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ لیسکو کے نقصانات کی مجموعی شرح 13.8 فیصد ہے جس میں 1.1 فیصد ٹرانسمیشن اور 12.3 فیصد ٹرانسمیشن اور ٹیکنیکل نقصانات کی شرح 11.76 اور چوری کی شرح 2 فیصد ہے۔

نیپرا نے صرف ٹیکنیکل نقصانات 11.76 فیصد کی اجازت دی ہے۔ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ محکمہ کی نااہلی کی قیمت صارفین ادا کررہے ہیں۔ پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ نے کہاکہ پی اے سی نے عوام کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ سال میں 500 ارب کے نقصانات دکھاتے ہیں، یہ رقم عوام ادا کرتے ہیں جبکہ یہ نقصانات واپڈا کی نااہلی کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔

پی اے سی کے استفسار پر بتایا گیا کہ حیسکو میں 18.46، سیپکو میں 19.5 فیصد ٹیکنیکل نقصانات ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ لیسکو میں سالانہ 36 ارب روپے ، گیپکو میں 12 ارب روپے، فیسکو میں 15 ارب روپے ، آئیسکو میں 12 ارب روپے، میپکو میں 30 ارب روپے، پیسکو میں 41 ارب روپے، حیسکو میں 19 ارب روپے، سیپکو میں 19 ارب روپے اور کیسکو میں 15 ارب روپے کے ٹیکنیکل نقصانات اور بجلی چوری شامل ہیں۔

انہوںنے کہاکہ گزشتہ 10 سالوں کے اقدامات کی وجہ سے بجلی کے نقصانات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ مسجد کے بجلی کے بل میں ٹی وی فیس لگ رہی ہے ۔ ملک بھر کی 10 تقسیم کار کمپنیوں میں مجموعی طورپر سالانہ 213 ارب روپے کے بجلی کے نقصانات ہیں جس میں ٹیکنیکل نقصانات اور بجلی کی چوری بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے نقصانات گرڈ سٹیشن، پرانی لائنوں اور بجلی کی چوری کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

اس صورتحال کو بہتر ہونا چاہئے۔ پی اے سی نے ملک کی تمام تقسیم کار کمپنیوں سے گھریلو صارفین کی طرف سے بجلی چوری کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ 66 کے وی کے فرسودہ گرڈ اسٹیشنوں کو ایک سال میں ختم کیاجائے۔ پورے ملک میں 220 کے وی اور 500 کے وی کے گرد اسٹیشن ہونے چاہئیں۔ نیٹ میٹرنگ کے حوالے سے ایم ڈی پیپکو مصدق احمد خان نے بتایا کہ لوگوں میں اس حوالے سے ابھی شعور نہیں ہے۔

بعض مشکلات کی وجہ سے یہ سکیم مقبول نہیں ہو سکی۔ اب حکومت نے سارے فریم ورک پر نظر ثانی کر دی ہے۔ چین کے پینل کا معیار ٹھیک نہیں تھا۔ اب فیصلہ ہوا ہے کہ پورے ملک میں نیٹ میٹر متبادل توانائی بورڈ کے پری کوالیفائیڈ وینڈر ہی لگا سکیں گے۔ ڈسٹری بیوشن کمپنی کے اندر نیٹ میٹرنگ کے حوالے سے اس ڈی اوز تعینات کردیئے گئے ہیں۔ اگر وینڈر کسی صارف کو غیر معیاری نیٹ ورک لگا کے دے گا تو اس کی بینک گارنٹی ضبط ہو جائے گی اور وہ بلیک لسٹ ہو جائے گا۔

نئے فریم ورک کے تحت اس کام کے لئے 30دن کا وقت مقرر کیاگیا ہے۔ نیٹ میٹرنگ کے لئے ملک بھر سے جمع ہونے والی درخواستوں کی آن لائن ٹریکنگ ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے سمارٹ میٹرنگ کے لئے ایک ارب کا قرضہ منظور ہوا تھا اور یہ میٹر 10سال میں لگنے تھے۔ یہ میٹر صرف ایک تہائی ملازمین کے لئے لگے تھے۔ یہ منصوبہ ختم کردیا گیا۔ اب حکومت اے ایم آئی سٹیم لگانے کے لئے نجی شعبے کے ذریعے منصوبہ بندی کررہی ہے۔