سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس،ماورائے عدالت قتل واقعات پر غور

کمیٹی کا سابق ایس ایس پی ملیر کی عدم گرفتاری پر اظہار تشویش ،رائو انوار کی عدم گرفتاری پر سندھ حکومت کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں،نسرین جلیل اجلاس میں جرگے کے نمائندوں نے اپنے مطالبات کمیٹی کے سامنے رکھے ،جسے کمیٹی نے تسلیم کیا ہے،نقیب محسود کراچی کا بیٹا تھا ،چیئرپرسن قائمہ کمیٹی

بدھ 31 جنوری 2018 19:12

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 جنوری2018ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس بدھ کو چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں کمیٹی کے ارکان ،وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ،وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال سمیت جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نقیب اللہ محسود کے والد نے بھی شرکت کی ۔

انسانی حقوق کمیٹی کے اجلاس میں ماورائے عدالت قتل واقعات پر غور کیا گیا ۔سندھ حکومت کی جانب سے کمیٹی کو نقیب اللہ اور انتظار قتل کیس پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ راؤ انوار گرفتاری کے بعد جس کا نام لینا چاہے لے ہمیں اس حوالے سے کوئی تشویش نہیں ہے ۔نقیب اللہ محسود کے والد عبدالقیوم محسود نے کہا کہ کمیٹی کے مشکور ہیں کہ اس نے ہمیں یہاں مدعو کیا ۔

(جاری ہے)

تحقیقات کے بعد ثابت ہوا ہے کہ نقیب بے گناہ تھا۔اجلاس میں سندھ حکومت کی سرزنش کی گئی کہ اس افسر کی سرپرستی کیوں ہوتی رہی۔رائو انوار کی ٹیم دس سال سے مظالم ڈھارہی ہے انکی گرفتاری کی بھی بات کی گئی۔اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اب تک لاپتہ ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ ان کو بااثر افراد نے چھپا رکھا ہے ۔

رائو انوار کی عدم گرفتاری پر سندھ حکومت کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔قائمہ کمیٹی نے راؤ انوار کی عدم گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔آئی جی سندھ پہلے اجلاس میں نہیں پہنچے تھے بعد میں تشریف لائے۔آئی جی کو کہا گیا کہ ملوث اہلکاروں کو نوکریوں سے برطرف کیا جائے۔پولیس کی گاڑیوں پر نمبر پلیٹس کو یقینی بنانے کی بات کی گئی۔انہوںنے کہا کہ سینیٹ کمیٹی نے تمام گزشتہ پانچ سالوں کہ پولیس مقابلوں کی تحقیقات اور ان میں ملوث اہلکاروں کو برطرف کرنے کی سفارش کی ہے۔

کمیٹی نے بغیرسرکاری اور جعلی نمبرپلیٹ گاڑیوں کے ذریعے لوگوں کو اٹھانے پر برہمی ظاہر کی ہے ۔زمینوں کے کاروبار ریتی بجری کے کاروبار کا سلسلہ بندہونا چاہیے۔ انہوںنے کہا کہ نقیب اللہ کراچی کا بیٹا تھا۔اجلاس میں جرگے کے نمائندوں نے اپنے مطالبات کمیٹی کے سامنے رکھے ،جسے کمیٹی نے تسلیم کیا ہے کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ حکومت واقعہ کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنائے۔

سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایجنسیوں کو قانون کے دائرہ کار میں لایاجائے۔اداروں کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے۔پولیس کے اندر سے جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔معصوم لوگوں کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے ۔صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بچوں کو پولیس مقابلہ کرنے کا الزام لگاکر جیلوں میں ڈالا جارہا ہے ۔بعد ازاں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے ارکان سہراب گوٹھ میں نقیب اللہ محسود کے اہل خانہ سے اظہار یکجہتی کے لیے لگائے گئے کیمپ میں پہنچے ۔

جرگے سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ راؤ انوار جیسے لوگوں کو پولیس میں آزادی دے دی گئی ہے ۔بے گناہ افراد کی لاشیں یہاں سے ملتی رہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں تھا ۔ہم سب کو مل کر ان معاملات کا سد باب کرنا ہے ۔انہوںنے کہا کہ ہم نقیب اللہ محسود کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔ہماری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں ۔راؤ انوار کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے ۔

سینیٹر شاہی سید نے اپنے خطاب میں کہا کہ نقیب اللہ کے کیس کو اٹھانے پرمیڈیا کا شکر گزار ہوں.۔کراچی میں سو سو لوگوں کی لاشیں اٹھائی گئی ہیں ۔اس شہر میں نامعلوم افراد کا راج 20سال سے چل رہا تھا ۔سب کو پتا تھا کہ وہ کون ہے ۔نقیب شہید کے ساتھ ظلم ہوا ہے ۔ہم تمام بے گناہوں کی بات کریں گے ۔پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے گذارش ہے کہ اس معاملے پر سیاست نہ کریں ۔نقیب اللہ محسود شہید سب مظلوموں کو انصاف دلائے گا ۔انہوںنے کہا کہ ہم قبائل کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں ۔آپ نے اسلام آباد کو ہلادیا ہے ۔ہمیں پیسہ نہیں صرف انصاف چاہیے ۔