بے ایمانی کا مطلب چیٹنگ اور فراڈ ہے‘چیٹنگ کرنے والوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے‘ ایک دن اسی شخص نے وزیر یا وزیراعظم بن جانا ہے‘آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنا چاہتے ہیں‘ عدالت کے پاس آئین کی تشریح کا اختیار ہے ‘ شناختی کارڈ پر نااہلی کو دائمی قرار دے چکے ہیں،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے نااہلی کی مدت کے تعین کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس

عدالت عظمیٰ نے سابق و زیر اعظم نوازشریف کے وکیل کے طلب کرنے پر کیس کی تیاری کیلئے 3 دن کی مہلت دیدی عدالت کے پبلک نوٹس میں ابہام ہے‘نواز شریف کے وکیل اعظم تارڑ کے دلائل عدالت کو تاحیات نااہلی سے متعلق فیصلہ دینا ہوگا‘ 62 ون ایف میں کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی‘نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر کی جائے‘ وسیم سجاد ایڈووکیٹ کے دلائل الیکشن لڑنا سب کابنیادی حق ہے، اٹھارویں ترمیم سے قبل آرٹیکل 63میں ماضی کے کنڈکٹ پرنااہلی تاحیات تھی، اٹھارویں ترمیم میں پارلیمنٹ کی بصیرت یہ تھی تاحیات نااہلی کو مدت سے مشروط کردیا‘ منیر اے ملک کے دلائل

بدھ 31 جنوری 2018 15:34

بے ایمانی کا مطلب چیٹنگ اور فراڈ ہے‘چیٹنگ کرنے والوں پر تاحیات پابندی ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 31 جنوری2018ء) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے نااہلی کی مدت کے تعین کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ بے ایمانی کا مطلب چیٹنگ اور فراڈ ہے، چیٹنگ کرنے والوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے، ایک دن اسی شخص نے وزیر یا وزیراعظم بن جانا ہے جبکہ عدالت نے سابق و زیر اعظم نوازشریف کے وکیل کے طلب کرنے پر کیس کی تیاری کیلئے 3 دن کی مہلت دیدی۔

بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس سجاد علی شاہ ،جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس عمر عطا بندیال لارجر بنچ کا حصہ ہیں پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس کی سماعت کی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے سینئر وکیل اعظم نذیر تارڑ پیش ہوئے اور کیس کی تیاری کیلئے تین دن کا وقت دینے کی درخواست کی جو عدالت عظمیٰ نے منظور کرلی۔

(جاری ہے)

دوران سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ بے ایمانی کا مطلب چیٹنگ اور فراڈ ہے، چیٹنگ کرنے والوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے، ایک دن اسی شخص نے وزیر یا وزیراعظم بن جانا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پبلک نوٹس ان لوگوں کیلئے تھا جو متاثرہ ہیں، تمام متاثرہ لوگ اپنے لئے ایک مشترکہ وکیل کر لیں، آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے پاس آئین کی تشریح کا اختیار ہے ‘شناختی کارڈ پر نااہلی کو دائمی قرار دے چکے ہیں۔وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عدالت کے پبلک نوٹس میں ابہام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک نوٹس میں غلطی ہو گئی ہوگی، یہ نوٹس صرف متاثرین کیلئے ہے۔ اللہ ڈنو کے وکیل وسیم سجاد نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت کو تاحیات نااہلی سے متعلق فیصلہ دینا ہوگا۔

62 ون ایف میں کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ نااہل شخص ضمنی یا آئندہ انتخابات لڑ سکتا ہی وسیم سجاد نے کہا کہ نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر کی جائے۔ جسٹس عظمت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی ڈیکلریشن پانچ سال بعد از خود کیسے ختم ہوسکتا ہی ایسا ہوا تو آرٹیکل 62 ون ایف غیر موثر ہوجائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک نوٹس میں غلطی ہوگئی ہوگی۔ پبلک نوٹس صرف متاثرین کے لئے ہے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ آرٹیکل 62 اہلیت سے متعلق ضرور ہے مگر اس میں سزا نہیں آرٹیکل 63 میں نااہلیت کے ساتھ سزا کا بھی تعین ہے اس موقع پر عدالتی معاون منیر اے ملک نے سپریم کورٹ میں اپنے دلائل میں کہا کہ عدالتی معاون منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن لڑنا سب کابنیادی حق ہے، اٹھارویں ترمیم سے قبل آرٹیکل 63میں ماضی کے کنڈکٹ پرنااہلی تاحیات تھی، اٹھارویں ترمیم میں پارلیمنٹ کی بصیرت یہ تھی تاحیات نااہلی کو مدت سے مشروط کردیا۔