عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنا عدلیہ کا فرض ہے ،صوبہ بھر کے 36اضلاع میں قائم مصالحتی مراکز سے مثبت نتائج مل رہے ہیں ،جسٹس منصور علی شاہ

مصالحتی مراکز نے ایک برس میں سات ہزار مقدمات کے تصفیے کرائے ، سی پیک آنے سے نئے تنازعات بھی جنم لیں گے، سی پیک سے متعلق تنازعات کو الگ اور ترجیحی بنیاد پرحل کیا جائیگا،پاک چین اے ڈی آر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا راولپنڈی چیمبر میں تقریب سے خطاب

منگل 30 جنوری 2018 22:44

عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنا عدلیہ کا فرض ہے ،صوبہ بھر کے 36اضلاع میں ..
راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 جنوری2018ء) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنا عدلیہ کا فرض ہے ،صوبہ بھر کے 36اضلاع میں قائم مصالحتی مراکز سے مثبت نتائج مل رہے ہیں ،مصالحتی مراکز نے ایک برس میں سات ہزار مقدمات کے تصفیے کرائے ، سی پیک آنے سے نئے تنازعات بھی جنم لیں گے، سی پیک سے متعلق تنازعات کو الگ اور ترجیحی بنیاد پرحل کیا جائیگا،پاک چین اے ڈی آر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے یہ بات منگل کو راولپنڈی چیمبر آف کامرس میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے اس موقع پر شرکاء کو پنجاب بھر میں قائم خصوصی مصالحتی مراکز کی اہمیت ،افادیت اور ضرورت کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے بتایاکہ عدالتوں میں سالہا سال سے زیر التواء مقدمات کو باہم رضامندی سے نمٹانے کے لیے پنجاب میں خصوصی طور پر مصالحتی مراکز کا قیام عمل میں لایا گیا جن کی بدولت نہ صرف یہ کہ کئی عشروں سے مقدمے بازی میں مصروف فریقین کے درمیان صلح کی راہ ہموار ہوئی بلکہ عدالتوں میں زیر التوا ء مقدمات کا بوجھ بھی کم ہوا اور عدالتی نظام کی روانی میں بہتری آئی ۔

(جاری ہے)

سید منصور علی شاہ نے کہاکہ پنجاب میں 13 لاکھ مقدمے زیرسماعت ہیںاور 62 ہزار افراد کے لئے صرف ایک جج ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے جج دن میں ہزاروں مقدمات کا فیصلہ دے آپ نے دیکھا ہو گا کہ مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں دادے کا مقدمہ پوتے تک چلتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ راولپنڈی چیمبر میں اے ڈی آر مرکز کے قیام سے تنازعات کے جلد حل میں مدد ملے گی ،مقدمات کے فیصلے جلد ہوں اورلوگوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی ۔

انہوں نے کہا کہ ایک حل تو یہ ہے ججز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اس بارے میں حکومت ہماری تجویز پر غور کر رہی ہے اور توقع ہے کہ اس پر جلد عملدرآمد ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے ہمیں تھوڑا ہٹ کے بھی سوچنا تھا ہم چیزیں ٹھیک کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں دنیا بھر میں اے ڈی آر سی ہیں لیکن حقیقت میں ایسا چلتے ہوئے کہیں نہیں دیکھا بزنس کمیونٹی کو زیادہ سمجھ ہوتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ تاجر کا فوکس اپنا کاروبار ہو یا وہ اپنا وقت مقدمہ بازی میں لگائی کہیں سٹے آرڈر ہو تا ہے یا با ر بار پیشی بھگتنی پڑتی ہے اس کا حل یہی ہے کہ قانون کے اندر رہتے ہوں ایسا فریم ورک بنایا جائے جس میں دونوں فریق مطمئن ہوں صلح کیسے کرانا ہے اس کے لیے ہمارے عدلیہ کے اداروں میں خاص تربیت دی جاتی ہے چیمبر آف کامرس اپنے نمائندے بھیج سکتی ہے جہاں وہ ثالثی کے بارے تربیتی پروگرام میںحصہ لے سکتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ یہ چیف جسٹس آف پاکستان کا وژن تھا کہ اے ڈی آر سی کو فروغ دیا جائے ہم نے لاہورسے آغاز کیا تو پتہ چلا کہ چھ ماہ میں سات ہزار مقدمات کا فیصلہ کیا گیا پنجاب میں 36اضلاع میں یہ اے ڈی آر سی بنائی گئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایک اور اہم بات کہ سی پیک کے تناظر میں جہاں 62ارب ڈالر کی سرمایا کاری آرہی ہے وہاں تنازعات بھی سامنے آئیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی ہدایت پر سی پیک سے متعلق مقدمات کیلئے علیحدہ اے ڈی آر بنانی ہو گی ملک میں سرمایا کاری کے فروغ کے لیے غیر ملکی سرمایا کار کے لیے آسانیاں دینا ہوں گی جہاں کم سے کم مقدمہ بازی ہو صرف پنجاب میں 800کے قریب چینی کمپنیاں کام کر ہی ہیں مجھے خوشی ہے کہ راولپنڈی چیمبر نے آگے بڑھ کر پہل کی ہے ہم اس سلسلے میں چیمبر کو مکمل راہنمائی اور معاونت کریں گے اس سے پہلے صدر چیمبر زاہد لطیف خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اے ڈی آر سنٹر کے قیام سے تاجر برادری اور چیمبر ممبران کے مقدمات جلد حل کرنے میں مدد ملے گی جیسے جیسے معشیت میں اضافہ ہو رہا ہے کاروباری پیچیدگیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ایسے میں ہمیں ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جہاں کم سے کم مقدمہ بازی ہو اور سرمایا کار عدم تحفظ کا شکار نہ ہو تقریب سے سیشن جج سہیل ناصر اور سینئر سول جج عظیم اختر نے بھی خطاب کیا اس موقع پر سینئر نائب صدر ناصر مرزا، نائب صدر خالد فاروق قاضی، گروپ لیڈر سہیل الطاف ، ایس ایم نسیم ، سابق صدور، مجلس عاملہ کے اراکین ، تاجر برادری کے نمائندے ، وکلاء اور ممبران چیمبر بھی موجود تھے۔