وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے انٹر سٹی بس پروجیکٹ کے تحت195 ملین روپے کی منظوری دے دی

پیر 29 جنوری 2018 21:49

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے انٹر سٹی بس پروجیکٹ کے تحت195 ملین ..
کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 جنوری2018ء) وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے انٹر سٹی بس پروجیکٹ کے تحت195 ملین روپے کی منظوری دے دی ہے جس سے پہلے مرحلے میں شاہراہ فیصل پر32 بسیں چلائی جائیں گی اور دوسرے مرحلے میں5 مختلف روٹس پر بسیں چلائی جائیں گی۔ جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق یہ بات انہوں نے وزیر اعلی ہائوس میں محکمہ ٹرانسپورٹ کے انٹرا سٹی اور انٹر سٹی بس پروجیکٹ اور بی آر ٹی اورینج لائن کے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔

اجلاس میں محکمہ منصوبہ بندی اور ترقی کے صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی ، ٹرانسپورٹ اور اطلاعات کے صوبائی وزیر سید ناصر شاہ ، چیئرمین پی اینڈ ڈی محمد وسیم ، سیکریٹری ٹرانسپورٹ سعیداعوان و دیگر نے شرکت کی۔ صوبائی وزیر اطلاعات و ٹرانسپورٹ سید ناصر شاہ نے وزیر اعلی سندھ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ صوبائی حکومت نے سندھ مضاربہ لمیٹڈ میں رکھنے کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے ہیں جس کے تحت 5 سال کے عرصے سے زائد کے لیے منصوبے کی ضروریات کی سبسڈی کے حوالے سے تعاون کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہ ڈیبٹ ایکویٹی کی شرح ہے یعنی15 فیصد ٹرانسپورٹ کی ایکویٹی اور15 فیصد ایکویٹی سندھ حکومت کا بلاسود قرضے کی صورت میں حصہ ہے، سندھ حکومت سندھ مضاربہ لمیٹڈ کے ساتھ پہلے ہی معاہدے پر دستخط کر چکی ہے۔ صوبائی وزیر سید ناصر شاہ نے کہا کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کو ڈائیوو ایکسپریس اینڈ لمیٹڈ سے تجویز موصول ہوئی ہے جس کے تحت انہوں نے 5 روٹس پر 288 گاڑیاں یعنی ہر روٹ پر تقریباً 50 گاڑیاں چلانے کی بات کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان روٹس میں قیوم آباد تا قصبہ کالونی، بلدیہ تا قائد آباد، شاہ فیصل کالونی تا فشریز، لانڈھی تا سرجانی اور لانڈھی تا بلدیہ شامل ہیں۔ وزیر اعلی سندھ نے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ کو ہدایت کی کہ وہ شاہراہ فیصل کے طویل روٹ پر 32 ڈائیوو بسیں شروع کریں اور پھر اسی طرح دیگر روٹس پر بسیں شروع کی جائیں گی۔ مراد علی شاہ نے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ کو 15 فروری سے شاہراہ فیصل پر بس سروس کے افتتاح کے لئے ضروری انتظامات کرنے کی ہدایت کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک ٹارگٹ ہے اور آپ کراچی میں انٹراسٹی بس سروس شروع کرنے کے حوالے سے تمام تر معاہدے اور دیگر انتظامات کو یقینی بنائیں۔ وزیر اعلی سندھ نے 195ملین روپے کی بھی منظوری دی تاکہ منصوبہ شروع ہو سکے۔ صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ سید ناصر شاہ نے وزیر اعلی سندھ کو انٹر سٹی بس پروجیکٹ پر بھی بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ انٹرا سٹی پروجیکٹ کی طرح سندھ حکومت نے سندھ مضاربہ کے ڈسپوزل پر منصوبے کی سبسڈی ضروریات کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کا بھی وہی 70:30کی ڈیبٹ ایکویٹی شرح ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ڈائیوو ایکسپریس نے سندھ مضاربہ لمیٹڈ کے تحت 9مختلف روٹس پر 134 گاڑیاں چلانے کی تجویز دی ہے، اس کے روٹس میں کراچی تا حیدرآباد ، کراچی تا سکھر، کراچی تا میر پور خاص، کراچی تا لاڑکانہ، کراچی تا بینظیر آباد، کراچی تا ملتان، کراچی تا ڈیرہ غازی خان، کراچی تا کوئٹہ اور سکھر تا کوئٹہ شامل ہے۔

ناصر شاہ نے کہا کہ ڈائیوو نے 9 آزادانہ سول پروپرائٹر کے ساتھ شراکت کی بھی تجویز دی ہے اور اس سول پروپرائٹر کے تحت منصوبے کی ایکویٹی کو ہینڈل کیا جائیگا اور وہ خود بسوں کے مالک ہوں گے جبکہ ڈائیوو اس کا آپریشنل شراکت دار اور بسوں کے بیڑے کو آپریٹ کرے گا۔ ہر ایک سول پروپرائٹر منصوبے کے لیے مضاربہ لون کے لیے اہل ہوگا۔ وزیر اعلی سندھ نے صوبائی وزیر کو ہدایت کی کہ وہ اس تجویز پر کام کی رفتار کو تیز کرے اور انٹراسٹی فیز ون شروع کرنے کے فورا بعد وہ انٹر سٹی بس پروجیکٹ شروع کریں گے۔

بی آر ٹی ایس عبدالستار ایدھی لائن (اورینج لائن) کے حوالے سے وزیر اعلی سندھ کو بتایا گیا کہ منصوبے کی مجموعی لمبائی 3.88 کلومیٹر ہے، جس میں 6 بسوں کے اسٹیشن ہوں گے جس میں سے ایک ایلی ویٹڈ ہوگا اور اس سے روزانہ 50ہزار مسافر سواری کریں گے، ان منصوبوں کے 2 پیکیجز ہیں۔پیکیج۔1 ٹائون ایڈمنسٹریشن (ٹی ایم ای) اورنگی ٹائون تا باچا خان فلائی اوور ہے۔

پیکج ۔ 2 باچاخان فلائی اوور تا جناح یونیورسٹی فار ویمن نارتھ ناظم آباد تک ہے۔ پیکج ۔1 کی لاگت 643.35 ملین روپے ہے اور اس کی لمبائی 1.38 کلومیٹر ہے جس میں 2 بس اسٹیشن اور ان میں سے ایک ایلی ویٹڈ ہے، اس وقت 42 فیصد کام ہوچکا ہے جبکہ اس کی تکمیل کی تاریخ اپریل 2018 ہے۔ پیکیج 2 2.5 کلومیٹر طویل ہے اور یہ 496.76ملین روپے کی لاگت سے مکمل ہوگا اور اس کے 4 بس اسٹیشن ہوں گے اور اس کا 25 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ وزیر اعلی سندھ نے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ کو ہدایت کی کہ وہ منصوبے کے دونوں پیکیجز کے دورے کریں اور میں ان کی مارچ 2018 ء تک تکمیل چاہتا ہوں۔

متعلقہ عنوان :