نا اہل وزیر اعظم کے سمدھی اور مفرور ملزم اسحق ڈار کو بچانے کیلئے حکومت سرگرم ہوگئی

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے اسحٰق ڈار کانام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے اور ان کے ریڈ نوٹس جاری کرنے کے حوالے سے قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹو بورڈ کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا

ہفتہ 27 جنوری 2018 21:43

نا اہل وزیر اعظم کے سمدھی اور مفرور ملزم اسحق ڈار کو بچانے کیلئے حکومت ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 جنوری2018ء) نا اہل وزیر اعظم کے سمدھی اور مفرور ملزم اسحق ڈار کو بچانے کیلئے حکومت سرگرم ہوگئی ہے اور وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے اسحٰق ڈار کانام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے اور ان کے ریڈ نوٹس جاری کرنے کے حوالے سے قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹو بورڈ کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے اور نیب کے تین نوٹسز کے باوجود اس معاملے پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور کبھی وزارت قانون سے رائے لینے کا بہانہ۔

بنایا جا رہا ہے اور کبھی نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے نیب کے اختیارات کو ہی نہیں مانا جا رہا نیب زرایع نے بتایا کہ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کے ریڈ نوٹس جاری کرنے اور نام ای سی ایل میں ڈالنے کے معاملے پر نیب اور وزارت داخلہ آمنے سامنے آگئے ہیں مگر کئی نوٹسز کے باووجود وزارت داخلہ اسحق ڈار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے میں ناکام رہی ہے نیب نے اسحق ڈار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی تحریری وجوہات سے بھی دوبارہ وزارت داخلہ کو آگاہ کر دیا، لیکن دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود اسحق ڈار کا نام ای سی ایل میں نہ ڈالا جا سکا 16نومبر کو نیب نے ملزم اسحق ڈار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی تھی زرایع نے بتایا کہ نیب کے اسحق ڈار کے ریڈ نوٹسز جاری کرنے پر بھی حکومت کوئی پیش رفت نہ کر سکی حکومت نے نیب کی سفارش کے باوجودہ اسحق ڈار کو گرفتار کروانے کیلئے ریڈ نوٹس بھی جاری نہیں کروائے اور اس بارے میں وزارت داخلہ نے ابھی تک ایف آئی اے کو کوئی حکم۔

(جاری ہے)

بھی جاری نہیں کیا نیب ایگزیکٹو بورڈ نے 14دسمبر کو ملزم کو وطن واپس لانے کیلئے ریڈ نوٹس جاری کروانے کی سفارش کی تھی زرایع نے بتایا کہ اسحق ڈار کو بچانے کیلئے حکومت نے معاملے پر وزارت قانون سے رائے طلب کر رکھی ہے جبکہ نیب انٹر پول کے ذریعے اسحق ڈار کو گرفتار کرکے وطن واپس لانے کا خواہاں ہے مگروزارت داخلہ کی اجازت کے بغیر اسحق ڈار کے ریڈ نوٹسز جاری نہیں کروائے جا سکتے ,اسی وجہ سے نیب اپنے احکامات پر عمل نہیں کروا سکا ہے