رواں سال جی ڈی پی گروتھ ریٹ 6 فیصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ انرجی سیکٹر میں 404 ارب روپے ‘ انفراسٹرکچر کے شعبہ میں 411 ارب روپے کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے‘ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ تھر جیسے پسماندہ علاقہ میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے ، آئندہ تین سے چار سالوں میں بجلی کے 4 ہزار میگا واٹ کے منصوبے وہاں لگیں گے‘ ملک کو اس وقت 20 سے 25 ارب ڈالر کی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ اور آئندہ چند سالوں میں 150 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کی ضرورت ہے‘ سی پیک میں 46 ارب ڈالر میں سے 29 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آپریشنل ہو چکی ہے

وفاقی وزیر داخلہ‘ پلاننگ‘ ڈویلپمنٹ و ریفارمز پروفیسر احسن اقبال کا لاہور چیمبر سے خطاب

ہفتہ 27 جنوری 2018 17:17

رواں سال جی ڈی پی گروتھ ریٹ 6 فیصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ ..
لاہور۔27جنوری(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 جنوری2018ء) وفاقی وزیر داخلہ‘ پلاننگ‘ ڈویلپمنٹ و ریفارمز پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ رواں سال جی ڈی پی گروتھ ریٹ 6 فیصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ انرجی سیکٹر میں 2012-13ء میں سرمایہ کاری 185 ارب روپے تھی جو اب 404 ارب روپے ہو چکی ہے‘ انفراسٹرکچر کے شعبہ میں 2012-13ء میں سرمایہ کاری 142 ارب روپے تھی جو اس وقت 411 ارب روپے ہے‘پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ تھر جیسے پسماندہ علاقوں میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے جبکہ آئندہ تین سے چار سالوں میں بجلی کے 4 ہزار میگا واٹ کے منصوبے وہاں لگیں گے‘ ملک کو اس وقت 20 سے 25 ارب ڈالر کی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ اور آئندہ چند سالوں میں 150 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کی ضرورت ہے‘ سی پیک میں 46 ارب ڈالر میں سے 29 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آپریشنل ہو چکی ہے‘ وہ ہفتہ کے روز لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورہ کے موقع پر چیمبر کے عہدیداروں سے خطاب کر رہے تھے‘ اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل نادرا‘ صدر لاہور چیمبر ملک طاہر جاوید‘ سینئر نائب صدر خواجہ خاور رشید سمیت دیگر بھی موجود تھے‘ وفاقی وزیر نے کہا کہ 2013ء کے انتخابات میں قوم کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان میں موجود مشکلات اور چیلنج سے نمٹنے کیلئے تجربہ کار قیادت کی ضرورت ہے کیونکہ 20 کروڑ عوام کی گاڑی کو کوئی ایسا اناڑی شخص نہیں چلا سکتا جس نے کبھی کوئی بلدیاتی ادارہ یا وفاقی ادارہ نہ چلایا ہو‘ انہوں نے کہا کہ ملک میں بجلی کا بدترین بحران اور سنگین دہشت گردی کا سامنا تھا‘ کراچی کے حالات کی وجہ سے سینکڑوں کارخانے بند ہو چکے تھے جبکہ کاروباری افراد وہاں سے نقل مکانی کر رہے تھے‘ بلوچستان میں قومی ترانہ اور قومی پرچم جرم تھا‘ معیشت 3 فیصد کی جمود پر پھنس چکی تھی‘ کوئی بھی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے تیار نہ تھا‘ انہوں نے کہا کہ2018ء میں پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ تقریباً ختم ہو چکی ہے‘ دہشت گردی کا قلع قمع ہو چکا ہے اور جس ریاست میں دہشت گرد چڑھائی پر تھے‘ آج ریاست چڑھائی پر ہے اور دہشت گرد محاصرے میں‘ ملک میں 90 فیصد فرقہ واریت اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوچکی ہے‘ کراچی میں امن لوٹ چکا ہے اور 100 سے زائد بند کارخانے دوبارہ چالو ہو چکے ہیں‘ بلوچستان کے طول و عرض میں یوم آزادی منانے کے ساتھ قومی پرچم بھی لہرایا جارہا ہے‘ انہوں نے کہا کہ جس ملک میں کوئی سرمایہ کار 10 ڈالر لگانے کیلئے بھی تیار نہ تھا اس میں سی پیک کے ذریعے اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے‘ 2013ء کے منشور میں ہم نے 4 ایز کی بات کی جس میں انرجی‘ دہشت گردی کا خاتمہ‘ اکنامی اور تعلیم شامل تھے ان پر موجودہ حکومت نے قابل ذکر کامیابیاں حاصل کیں اور آج پاکستان ’’رائزنگ پاکستان‘‘ کی حیثیت سے نمایاں مقام رکھتا ہے‘ انہوں نے کہا کہ ٹھوس اقدامات کی وجہ سے ایس ایم ایز سیکٹر کی پیداواری استعداد میں اضافہ ہوا ہے‘ سٹیٹ بینک کی پہلی کوارٹر رپورٹ کے مطابق گزشتہ 9 سال میں سب سے زیادہ گروتھ ریٹ حاصل ہوا‘ وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے 4 سالوں میں ملک میں 11 ہزار میگا واٹ بجلی کا اضافہ کیا اور یہ استعداد 1947ء سے لیکر 2013ء تک 16 سے 18 ہزار میگا واٹ تھی‘ انہوں نے کہا کہ انرجی اور انفراسٹرکچر معیشت میں دو بڑی رکاوٹیں تھیں‘ جن پر گزشتہ 14 سالوں میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی‘ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں اگلے 10 سے 20 سالوں میں منڈیوں تک رسائی‘ کمیونیکیشن‘ لاجسٹک کے نظام میں دوررس اثرات مرتب ہونگے‘ انہوں نے کہا کہ ملک میں موٹر ویز بن رہے ہیں جبکہ پاکستان ریلویز میں خطیر سرمایہ کاری ہو رہی ہے‘ انہوں نے کہا کہ مخالفین ہمیں یہ طعنہ دیتے ہیں کہ ن لیگ کو سڑکیں بنانے کا شوق ہے‘ انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ سڑکیں وہ بناتا ہے جو ترقی کرنا جانتا ہے‘ انہوں نے کہا کہ ون بیلٹ ون روڈ ویژن کی بنیاد بھی رابطہ ہے‘ اگر ہم نے ڈیمانڈپیدا کرنی ہے تو ہمیں نئی منڈیاں تلاش کرنا ہونگی جس کیلئے رابطہ بہت ضروری ہے‘ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ گوادر اور کوئٹہ کے درمیان تین سالوں میں سڑک کو مکمل کیا گیا جس سے دو د ن کا سفر صرف 8 گھنٹے کا رہ گیا‘ گوادر‘ خضدار‘ رتو ڈیرو کا منصوبہ بھی ہنگامی بنیادوں پر بنا‘ انہوں نے کہا کہ جتنی سعودی عرب اور ایران کے تیل کی انرجی ویلیو ہے‘ اتنی ہی تھر میں موجود کوئلے کے ذخائر کی اہمیت ہے‘ موجودہ حکومت نے پہلی دفعہ تھر کول کی مائننگ کے منصوبہ کیلئے فنانسنگ حاصل کی اور وہاں کوئلے کے کان کی کھدائی شروع ہو چکی ہے‘ انہوں نے واضح کیا کہ دنیا کے ٹیکنو کریٹس بھی ہم لے آئیں اگر ملک میں بے یقینی اور انتشار کی کیفیت ہو گی تو تمام ماہرین ناکام ہو جائیں گے اس لئے ہمیں ملک میں امن و استحکام لانے کی ضرورت ہے‘ 2018ء میں یہ فیصلہ ہو گا کہ قوم تسلسل چاہتی ہے یا خلل‘ سیاسی جھٹکوں کے باوجود 6 فیصد گروتھ ریٹ پر پہنچنا مضبوط مومینٹم کی دلیل ہے‘ یہ سلسلہ جاری رہا تو آئندہ دو سے تین سالوں میں 8 فیصد گروتھ ریٹ کو حاصل کرلیں گے‘ انہوں نے کہا کہ ہمارا اگلا چیلنج گلوبل اکانومی کے ساتھ integrate ہونے کا ہے کیونکہ ہم نے کبھی ملک کو ایکسپورٹ لینڈ گروتھ سٹرٹیجی کی لائن پر نہیں ڈالا‘ انہوں نے کہا کہ1980ء میں چین کی فی کس آمدنی 200 ڈالر جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی 300 ڈالر تھی جو کہ آج چین کی فی کس آمدنی 8 ہزار ڈالر اور پاکستان کی 16 سو ڈالر ہے‘پروفیسر احسن اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ویلیو ایڈیشن کی طرف جانے کے ساتھ ساتھ بزنس کمیونٹی کو ریسرچ کیلئے یونیورسٹیز کے ساتھ منسلک ہونا چاہئے اگر ریسرچ بیس نہیں ہونگے تو جدت نہیں لاسکتے‘ وفاقی وزیر نے کہا کہ سی پیک وہ تحفہ ہے جو کسی قوم کو صدیوں میں ایک دفعہ ملتا ہے‘ 5 جولائی 2013ء کو جب معاہدہ پر دستخط ہوئے تو محض یہ کاغذ کا ٹکڑا تھا لیکن ایک سال کے عرصہ میں اس کو 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں تبدیل کر دیا گیا جس میں سے 29 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری آپریشنل ہو چکی ہے‘ انہوں نے کہا کہ سی پیک وہ مقناطیس ہے جو دنیا کو پاکستان کی طرف متوجہ کر رہا ہے‘ یورپی‘ خلیجی ممالک سمیت وسطی ایشیائی ریاسیں اور ہمسایہ ممالک بھی پاکستان کے ساتھ ملکر کام کرنا چاہتے ہیں‘ انہوں نے واضح کیا کہ سی پیک میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے کوئی ایسی مراعات نہیں جو پاکستانی سرمایہ کاروں کو متاثر کریں‘ چینی قیادت نے یہ برملا کہا ہے کہ سی پیک کے ذریعے پاکستان کو صنعتی معیشت بنائیں گے‘ ہمارے لئے موقع ہے کہ چین سے 85 ملین ملازمتیں منتقل ہو رہی ہیں اور یہ ان ممالک کی طرف جارہے ہیں جن کی پیداواری لاگت کم ہے‘ ہمیں چاہئے کہ چین کی مارکیٹ سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے سیل بنائیں‘ انہوں نے بتایا کہ دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے 100 ارب روپے سے زمین کا حصول مکمل کرلیا گیا ہے جبکہ منگلا ڈیم اور داسو ہائیڈل پراجیکٹ پر بھی کام کر رہے ہیں‘ بعد ازاںوفاقی وزیر نے لاہور چیمبر میں نادرا سہولت ڈیسک اور چیمبر کی نئی ویب سائٹ کا بھی افتتاح کیا۔