جنوبی ایشیاء میں دیرپا امن کے لئے مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ناگزیر ہے ، سپیکر قومی اسمبلی

امید ہے انڈونیشیا سمیت دیگر دوست ممالک اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کر تا رہیں گے ، عالمی دہشتگردی کے خلاف جنگ ہمارا بہت بڑا چیلنج رہا ہے ،اس میں پاکستان نے 65ہزار جانوں کے نذرانے اور اپنی معیشت کے 120ارب امریکی ڈالرزکے نقصان کے ساتھ، بھاری قیمت ادا کی ہے، دہشتگردی اور انتہاپسندی ہمارے مشترکہ دشمن ہیں، انڈونیشیا کے صدرجاکو ویدودو کا دورہ پاکستان اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب تاریخی اہمیت کا حامل ہے ،پاک و ہندسے تقریباً 600 مسلمان فوجیوں نے انڈونیشیائی جنگ آزادی میں حصہ لیا اور یہ 600خوش نصیب اشخاص ہم دونوں اقوام کے مشترکہ ہیروز ہیں،قائد اعظم کی انڈونیشیائی جدوجہد آزادی کے ساتھ ذاتی وابستگی اس حقیقت سے مزید عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے کراچی کے ہوائی اڈہ پر ولندیزی طیاروں کو روکنے کا حکم دیا، جو جکارتہ میں اپنی فوج کے لئے سازوسامان لے جارہے تھے ، سردار ایاز صادق کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب

جمعہ 26 جنوری 2018 22:50

جنوبی ایشیاء میں دیرپا امن کے لئے مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ناگزیر ..
اسلام آ باد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 26 جنوری2018ء) سپیکر قو می اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں دیرپا امن کے لئے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں اس حل طلب مسئلہ کا منصفانہ اور پُرامن حل درکار ہے ،پاکستان امید کرتا ہے کہ انڈونیشیا جیسے دوست ممالک اس ضمن میں پاکستان کی مدد کر تے رہیں گے، عالمی دہشتگردی کے خلاف جنگ ہمارا بہت بڑا چیلنج رہا ہے ،اس میں پاکستان نے 65ہزار جانوں کے نذرانے اور اپنی معیشت کے 120ارب امریکی ڈالرزکے نقصان کے ساتھ، بھاری قیمت ادا کی ہے، دہشتگردی اور انتہاپسندی ہمارے مشترکہ دشمن ہیں، انڈونیشیا کے صدرجاکو ویدودو کا دورہ پاکستان اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب تاریخی اہمیت کا حامل ہے ،پاک و ہندسے تقریباً 600 مسلمان فوجیوں نے انڈونیشیائی جنگ آزادی میں حصہ لیا اور یہ 600خوش نصیب اشخاص ہم دونوں اقوام کے مشترکہ ہیروز ہیں،قائد اعظم محمد علی جناح کی انڈونیشیائی جدوجہد آزادی کے ساتھ ذاتی وابستگی اس حقیقت سے مزید عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے کراچی کے ہوائی اڈہ پر ولندیزی طیاروں کو روکنے کا حکم دیا، جو جکارتہ میں اپنی فوج کے لئے سازوسامان لے جارہے تھے،پاکستان کو اس حقیقت پر فخر ہے کہ جب 1995ء میں انڈونیشیا نے اپنی گولڈن جوبلی منائی، تو اس نے اپنے پاکستانی ساتھیوں کو نہیں بھولا اور قائد اعظم محمد علی جناح کو سب سے بڑے سول ایوارڈ ’’ادی۔

(جاری ہے)

پورا‘‘ سے نوازا،۔جمعہ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سپیکر قو می اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ مجلس شوریٰ، پارلیمنٹ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف سے جاکو ویدودو، جمہوریہ انڈونیشیا کے جمہوری طور پر منتخب ساتویں صدر کا خیرمقدم کرنا میرے لیے منفرد مسرت و انبساط کا باعث ہے۔آپ کا دورہ اور اس پارلیمنٹ سے آپ کا خطاب ہمارے لیے انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔

ڈاکٹر احمد سوئیکارنو، انڈونیشیا کے پہلے صدر نے 26جون،1963کو قومی اسمبلی پاکستان سے خطاب فرمایا تھا اور اب 55سال بعدیہ ایوان دنیا کے سب سے بڑی مسلمان آبادی والے ملک کے جمہوری طور پر منتخب صدر کی اپنے مابین موجودگی پر شاداں و فرحاں ہے۔ 20 کروڑ عوام کے نمائندہ کی حیثیت سے یہ پارلیمنٹ آپ کی موجودگی پر فخر کرتی ہے۔ہماری دونوں اقوام گہرے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی رشتوں کی لڑی میں پروئی ہوئی ہیں۔

ہمارے برادرانہ تعلقات دونوں ممالک کے معرض وجود میں آنے سے قبل بھی موجود تھے کیونکہ ہم اپنی اپنی جدوجہد آزادی کے دوران بھی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ 17اگست،1945ء کو، جب انڈونیشیا کے بابائے قوم، ڈاکٹر احمد سوئیکارنو نے ولندیزیوں سے اپنی قوم کی آزادی کا اعلان کیا، تو قائد اعظم محمد علی جناح ، جو اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر تھے،نے مشرق بعید میں تعینات برطانوی استعماری فوج کے مسلمان فوجیوں سے درخواست کی کہ وہ ولندیزی استعماری جارحیت کے خلاف اپنے انڈونیشیائی بھائیوں کا ساتھ دیں۔

یہ ہمارے دوممالک کا درخشاں باب رہا ہے کہ برصغیر پاک و ہندسے تقریباً 600مسلمان فوجیوں نے انڈونیشیائی جنگ آزادی میں حصہ لیا۔ جن میں سے 500 نے جام شہادت نوش کیا۔ یہ 600 خوش نصیب اشخاص ہم دونوں اقوام کے مشترکہ ہیروز ہیں اور ہم مشترکہ طور پر انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔قائد اعظم محمد علی جناح کی انڈونیشیائی جدوجہد آزادی کے ساتھ ذاتی وابستگی اس حقیقت سے مزید عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے کراچی کے ہوائی اڈہ پر ولندیزی طیاروں کو روکنے کا حکم دیا، جو جکارتہ میں اپنی فوج کے لئے سازوسامان لے جارہے تھے۔

پاکستان کو اس حقیقت پر فخر ہے کہ جب 1995ء میں انڈونیشیا نے اپنی گولڈن جوبلی منائی، تو اس نے اپنے پاکستانی ساتھیوں کو نہیں بھولا اور قائد اعظم محمد علی جناح کو سب سے بڑے سول ایوارڈ ’’ادی۔پورا‘‘ سے نوازا۔ انڈونیشیائی بھائیوں اور بہنوں نے اپنی طرف سے کبھی بھی بحران کی گھڑیوں میں پاکستان کوتنہا نہیں چھوڑا۔1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہوں نے ہمارا شانہ بشانہ ساتھ دیا اور اس نازک وقت میں انڈونیشیا کے پاس جو بھی فوجی وسائل دستیاب تھے وہ ہمارے حوالے کرنے میں ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔

یہ اظہر من الشمس ہے کہ مسئلہ کشمیر ہی جنوبی ایشیاء میں 1948ء،1965ء،1971ء اور بعد ازاں کے تنازعات کا بنیادی سبب رہا ہے۔جنوبی ایشیاء میں دیرپا امن کے لئے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں اس حل طلب مسئلہ کا منصفانہ اور پُرامن حل درکار ہے۔پاکستان امید کرتا ہے کہ انڈونیشیا جیسے دوست ممالک اس ضمن میں پاکستان کی مدد کر تے رہیں گے۔

ہمارے دونوں عوام کے تاریخی تعاون میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تنوع واقع ہوا ہے جس سے ہماری دونوں ممالک کی حکومتوں کو تمام شعبوں میں تعاون کا ایک مضبوط نظام وضع کرنے میں مدد ملی ہے۔اقوام متحدہ، او آئی سی، بین الپارلیمانی یونین، او آئی سی رکن ریاستوں کی پارلیمانی یونین اور دیگر بین الاقوامی اور علاقائی فورموں کے اراکین کی حیثیت سے ہم مشترکہ تشویش اور مفادات کے معاملات پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

ہمارے دونوں ممالک کی پارلیمنٹس بھی باہمی مفاد کے حامل تعاون کے شعبہ جات میں مسلسل کام کرتی رہی ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے انتہائی خوشی ہے کہ ہمارے پارلیمنٹ کے دونوں ایوان میںپاک۔انڈونیشیا دوستی گروپ تشکیل دیئے گئے ہیں جن میں اس وقت ایوان میں حاضر تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے۔حالیہ برسوںمیں دونوں ممالک کے عوام کے مابین رابطوں میں اضافہ ہوا ہے، جس سے دونوں طرف اعلیٰ تعلیمی، ثقافتی تبادلوں، دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقعوں میں تعاون کی نئی راہیں کھلی ہیں۔

تاہم، ہماری مشترکہ بہتری کیلئے ان اہم شعبوں میں توسیع کاابھی مزید امکان موجود ہے۔ چونکہ دونوں ممالک کی انتظامی قیادت اس راہ پر گامزن ہے، ہمیں بھی ہماری دوستی کا دائرہ وسیع کرنے کیلئے پارلیمانی سفارتکاری کے کلیہ کو بروئے کار لانا چاہیے۔دونوں ممالک کی پارلیمان نمو پذیر اور پائیدار شراکت داری کے حصول کے لئے مشترکہ طور پر کام کر کے ایک بامعنی کردار ادا کر سکتی ہیں۔

جس ایوان سے آپ کچھ ہی دیر میں خطاب کرنے والے ہیں، وہ لوگوں کی خواہشات و امیدوں کا حقیقی مظہر ہے۔ اپنے مباحثوں اور قانون سازی کے ذریعے اس نے موجودہ پاکستان کے مسائل کے قابل عمل حل کے لئے جدوجہد کی ہے۔اس سلسلے میں، عالمی دہشتگردی کے خلاف جنگ ہمارا بہت بڑا چیلنج رہا ہے جس میں پاکستان نے پینسٹھ ہزار جانوں کے نذرانے اور اپنی معیشت کے ایک سو بیس ارب امریکی ڈالرزکے نقصان کے ساتھ، بھاری قیمت ادا کی ہے۔

درحقیقت، ہماری دو قومیں، دو سب سے بڑے مسلم ممالک ایک ہی جیسی پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہیں، چاہے وہ 2002ء کے بالی بم دھماکے ہوں یا 2009ء اور 2016ء کے جکارتہ حملے یا پھرپشاور میں 2016ء میں آرمی پبلک سکول پر بھیانک حملہ ہو۔ دہشتگردی اور انتہاپسندی ہمارے مشترکہ دشمن ہیں۔آپ حقیقی معنوں میں ایک مصلح اور بصیرت رکھنے والے صدر کے طور پر جانے جاتے ہیں جو عوام کا نبض شناس ہے۔

مجھے آپ کا وہ انٹرویو یاد آرہا ہے جوآپ نے کسی نیوز چینل کو دیاتھااور یہاں میں آپ ہی کے الفاظ دہراتا ہوں’’ انڈونیشیا میں اسلام رواداری کا اسلام ہی؛ انڈونیشیا میں اسلام اعتدال پسند ہے اور ہم اس پر مسلسل عمل درآمد کر رہے ہیں۔ جو ہمارا امتیاز ہے انڈونیشیا میں ہماری کثرتیت کا سلسلہ جاری رہے گا۔یہ کہ ہمارے عوام متحد ہیں، یہ کہ ہمارا ملک مسلسل ترقی کی راہ اور بہتری پر گامزن رہے گاتاکہ ہم بہتر سے بہتر منزل حاصل کر سکیں۔

‘‘ یہ وہ دانائی ہے جس کی تمام عالم اسلام کو چیلنجز سے باہر نکلنے کے لئے ضرورت ہے اوریہی وہ فراست اور زیرکی ہے جس کے حصول کی تمنا پورا ایوان آپ سے رکھتا ہے۔ان الفاظ کے ساتھ، میں ایک بار پھر تہہ دل سے آپ کی پاکستان آمد پر شکرگزار ہوں اور ہماری پارلیمنٹ میں آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔