نقیب اللہ محسود کو جعلی مقابلے میں مارا گیا،تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

نقیب قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کل کراچی رجسٹری میں ہوگی مقابلے کے مقام پر مارے گئے افراد کی جانب سے فائرنگ کے شواہد نہیں ملے، چاروں افراد پر یکطرفہ طور پر پولیس فائرنگ کی گئی، جائے وقوع سے پولیس کی سب مشین گن کے 26 خالی خول ملے، سابقہ تفتیشی افسر کو مقابلے میں مارنے کی دھمکی دی گئی،رپورٹ میں انکشاف

جمعہ 26 جنوری 2018 13:06

نقیب اللہ محسود کو جعلی مقابلے میں مارا گیا،تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 26 جنوری2018ء) سندھ پولیس نے نقیب اللہ محسود قتل کیس کی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی، رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مقتول کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا، پولیس مقابلے کے مقام پر مارے گئے افراد کی جانب سے فائرنگ کرنے کے شواہد نہیں ملے، چاروں افراد پر یکطرفہ طور پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی، جائے وقوع سے پولیس کی سب مشین گن کے 26 خالی خول ملے،تحقیقاتی کمیٹی کے دورے کے بعد سابقہ تفتیشی افسر کو مقابلے میں مارنے کی دھمکی دی گئی۔

جمعہ کو سندھ پولیس نے نقیب اللہ محسود قتل کیس کی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی تحقیقاتی کمیٹی کی تفصیلی رپورٹ 15 صفات پر مشتمل ہے، جس کے ساتھ دستاویزات بھی منسلک ہیں۔

(جاری ہے)

تحقیقاتی رپورٹ میں سابق ایس ایس پی ملیر را انوار احمد کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق نقیب محسود کو 3 جنوری کو دیگر 2 افراد کے ساتھ سہراب گوٹ سے اٹھایا گیا، تاہم را انوار کی ٹیم نے ان دونوں افراد کو مبینہ طور پر رشوت لے کر چھوڑ دیا جبکہ نقیب کو مقابلے میں مار دیا۔

رہا کیے گئے دو افراد کے بیانات کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔پولیس رپورٹ کے مطابق جیل میں قید قاری احسان نے رائو انوار احمد کے ان الزامات کی تردید کردی ہے کہ متقول قاری احسان کا ساتھی اور پولیس کو مطلوب تھا۔قاری احسان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قتل کیا گیا نقیب محسود وہ نہیں جو پولیس کو مطلوب تھا۔ پولیس حراست کے دوران جس نجی عقوبت خانے میں نقیب محسود کو رکھا گیا وہاں 47 دیگر ملزم بھی تھے۔

رپورٹ کے مطابق اس کال کوٹھڑی نما کمرے سے پولیس چار پانچ افراد کو لے جا کر مقابلے میں مار دیتی تھی۔رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ پولیس مقابلے کے مقام پر مارے گئے افراد کی جانب سے فائرنگ کرنے کے شواہد نہیں ملے، چاروں افراد پر یکطرفہ طور پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی جبکہ جائے وقوع سے پولیس کی سب مشین گن کے 26 خالی خول ملے۔

تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پولیس مقابلے کی سرکاری ایف آئی آر کے پہلے تفتیشی افسر نے سنسنی خیز انکشافات کیے، تاہم مذکورہ تفتیشی افسر کو ایس پی انویسٹی گیشن نے خاموش رہنے کی ہدایت کی جبکہ تحقیقاتی کمیٹی کے دورے کے بعد سابقہ تفتیشی افسر کو مقابلے میں مارنے کی دھمکی دی گئی۔رپورٹ میں آگاہ کیا گیا کہ سابق ایس ایس پی رائو انوار احمد کو بیان کے لیے طلب کیا گیا مگر وہ پیش نہیں ہوئے، جبکہ ان کے گھر کے باہر نوٹس بھی چپساں کیا گیا۔

پولیس مقابلے میں ملوث کوئی بھی پولیس افسر بیان دینے کے لئے نہیں آیا اور رائو انوار کی طرح تمام پولیس افسر اور اہلکار بھی روپوش ہوگئے۔تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ نقیب محسود مقدمہ قتل کی تحقیقات کسی غیر جانبدار افسر کو دی جائے۔نقیب اللہ قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہفتہ کو کراچی رجسٹری میں ہوگی۔