فاٹا تک سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار وسیع کرنے کا طریقہ کار عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے

پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابرکا سیمینارسے خطاب

جمعرات 25 جنوری 2018 22:38

فاٹا تک سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار وسیع کرنے کا طریقہ ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 25 جنوری2018ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ فاٹا تک سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار وسیع کرنے کا جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ جمعرات کو فاٹا کے متعلق شہید بھٹو فائونڈیشن کی جانب سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فاٹا کی طرح پاٹا بشمول چترال، دیر ، سوات اور مالاکنڈ میں بھی سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں تھا لیکن 1973ء میں فوری طور پر سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار ان علاقوں تک وسیع کر دیا گیاا ور اس کے لئے کسی سرکاری نوٹیفکیشن کی ضرورت نہیں ہوئی تھی۔

انہوں نے پوچھا کہ اس مرتبہ مختلف طریقہ کار جو اپنایا گیا ہے اس سے گڑبڑ کی بو آرہی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے اس شک کا اظہار کیا کہ عدالتوں کا دائرہ اختیار مختلف مراحل میں کرنے سے شاید یہ مقصد حاصل حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ بیرونی دبائو پر شکیل آفریدی کو رہا کر دیا جائے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے واضع کیا کہ وہ شکیل آفریدی کی رہائی کے خلاف نہیں کیونکہ ان کو سزا مبینہ طور پر منگل باغ کی مدد کرنے پر ایف سی آر کے تحت دی گئی ہے نہ کہ اسامہ بن لادن کا پتہ لگانے پر۔

انہو ں نے کہا کہ تاہم قبائلی علاقوں کے عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنا اور انہیں مبہم امید دلانا سراسر غلط اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ترمیم شدہ بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا ہے جس میں تمام قبائلی علاقوں میں فوری طور پر اعلیٰ عدالتوں کا اختیار قائم کرنے کے لئے قانون سازی تجویز کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں حزبِ اختلاف ایک آئینی بل بھی پیش کرے گی تاکہ فاٹا کے متعلق قانون سازی کے اختیارات صدر سے لے کر پارلیمنٹ کو تفویض کئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں امن اور ترقی اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک فاٹا کے مسئلے کی نشاندہی نہیں کی جاتی اور پاکستان کی افغان پالیسی پر نظرثانی نہیں کی جاتی۔ افغانستان کو ہر صورت میں ایک آزاد اور خودمختار ریاست کی طرح برتنا چاہیے اور اسے پاکستان کا پانچواں صوبہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ قبائلی علاقوں میں لیوی اور کیش اکٹھا کرنے کا موجودہ نظام فوری طور پر ختم کیا جائے۔ انہوںنے کہا کہ فاٹا کے غریب عوام غیرقانونی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور یہ ٹیکس کچھ لوگوں کے لئے فائدہ مند کاروبار بنا ہوا ہے۔ انہوں نے فاٹا میں سول اور ملٹری بیوروکریسی کی جانب سے عوامی اخراجات کا آڈٹا ور آڈیٹر جنرل سے کرانے کا مطالبہ بھی کیا۔