سی پیک سے حاصل ہونے والی آمدنی این ایف سی فارمولے کے تحت تقسیم ہوگی ،ْ قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات

چینی سرمایہ کاروں نے کہیں بھی زمین نہیں خریدی‘ اقتصادی زونز میں صرف چینی سرمایہ کاری کی اطلاعات درست نہیں‘ 2013ء سے لے کر اب تک بینک کے خسارے میں جانے کی بات درست نہیں ،ْقرضوں کی واپسی کی شرح تسلی بخش ہے ،ْ بعض غیر فعال قرضہ جات ہیں جن کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں پیش کی جائیں گی ،ْ رانا محمد افضل خان

جمعرات 25 جنوری 2018 16:30

سی پیک سے حاصل ہونے والی آمدنی این ایف سی فارمولے کے تحت تقسیم ہوگی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 جنوری2018ء) قومی اسمبلی کوبتایاگیا ہے کہ سی پیک سے حاصل ہونے والی آمدنی این ایف سی فارمولے کے تحت تقسیم ہوگی‘ چینی سرمایہ کاروں نے کہیں بھی زمین نہیں خریدی‘ اقتصادی زونز میں صرف چینی سرمایہ کاری کی اطلاعات درست نہیں‘ 2013ء سے لے کر اب تک بینک کے خسارے میں جانے کی بات درست نہیں ،ْقرضوں کی واپسی کی شرح تسلی بخش ہے ،ْ بعض غیر فعال قرضہ جات ہیں جن کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں پیش کی جائیں گی ۔

جمعرات کو وقفہ سوالات کے دوران وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے بتایا کہ سال 2013ء سے لے کر اب تک بینک کے خسارے میں جانے کی بات درست نہیں۔ ایوان کو آگاہ کیا گیا کہ جون 2013ء میں بینک کا قبل از ٹیکس منافع 2.8 ارب روپے‘ دسمبر 2014ء میں 8.3 ارب ‘ دسمبر 2005ء میں 8.4 ارب روپے اور دسمبر 2016ء میں بینک کا قبل از ٹیکس منافع 6.5 ارب روپے رہا۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ بینک کے سالانہ کھاتے برائے سال 2017ء فی الحال چارٹرڈ اکائونٹنٹ فرم کی جانب سے آڈٹ کے عمل میں ہے۔ وزیر مملکت نے کہا کہ زرعی ترقیاتی بینک کی پالیسی اور خدمات پورے ملک کے لئے یکساں ہیں‘ بعض علاقوں میں بینک خسارے میں جانے کی اطلاعات ہیں تاہم بینک کے منافع اور خدمات کو یکساں بنیادوں پر دیکھا جاتا ہے۔ قرضوں کی واپسی سے متعلق صبیحہ نذیر کے ضمنی سوال پر وزیر مملکت نے بتایا کہ قرضوں کی واپسی کی شرح تسلی بخش ہی،ْ بعض غیر فعال قرضہ جات ہیں جن کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں پیش کی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ بینک میں سینئر مینجمنٹ کی آسامیاں ایک خاص طریقہ کار کے تحت طے ہوتی ہیں۔ عمومی بھرتیوں کے بارے میں تفصیلی جواب دیا جاچکا ہے ،ْ انہوں نے کہا کہ زرعی قرضوں کے حجم اور اہلیت زمین کی شرح کے مطابق طے ہوتی ہے۔ عمومی طور پر پراجیکٹ لون 25 فیصد زرعی کریڈٹ سے متعلق ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال زرعی قرضوں کی فراہمی کی شرح میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور لوگ اس سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔

رانا محمد حیات کے ضمنی سوال پر انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں زرعی قرضوں کی شرح 1 ہزار روپے سے زائد رکھی گئی ہے۔ اس پیکیج سے متعلق تمام تر تفصیلات درست ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف ایک قرضے پر سود کی شرح 14 فیصد ہے۔ باقی پر بہت کم ہے۔ صنعت کے لئے کریڈٹ کی شرح 8 اور 9 فیصد کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کے مرکز کے علاوہ پنجاب اور دیگر صوبوں نے بھی مختلف پیکیجز کا اعلان کیا ہے جو خوش آئند ہے۔

پارلیمانی سیکرٹری برائے پلاننگ نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں رشکئی‘ بلوچستان میں بوستان‘ سندھ میں دھابیجی‘ پنجاب میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی‘ گلگت بلتستان‘ آزاد جموں و کشمیر اور فاٹا میں مہمند ماربل سٹی کے نام سے اقتصادی زونز قائم کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سی پیک سے فوائد حاصل کرنے کے لئے حکومت نے ابتدائی طور پر توانائی اور جدید ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔

اس منصوبے سے پاکستان میں تجارت اور صنعتکاری کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ پارلیمانی سیکرٹری پلاننگ ڈاکٹر عباد اللہ نے کہا کہ سی پیک کے حوالے سے این ایف سی ایوارڈ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ شرح کے حوالے سے نیا سوال لایا جائے۔ 18ویں ترمیم کے تحت متعلقہ ڈسٹرکٹ کیلئے فارمولا طے ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک سے حاصل ہونے والی آمدنی این ایف سی فارمولے کے تحت تقسیم ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ چینی شہریوں کی جانب سے پاکستان میں کہیں بھی کوئی زمین نہیں خریدی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی زونز میں پوری دنیا کے سرمایہ کار آسکتے ہیں۔ اقتصادی زونز کے لئے مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے تاہم صرف فاٹا میں کام شروع ہو چکا ہے باقی پر ابھی تک کام شروع نہیں ہوا۔ شہریار آفریدی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ صرف چینی سرمایہ کاروں کے لئے سرمایہ کاری مخصوص کرنے کی بات درست نہیں۔

مزمل احمد قریشی کے ضمنی سوال پر انہوں نے کہا کہ پورٹ قاسم میں سٹیل ملوں میں سرمایہ کاری سے پاکستان سٹیل ملز یا مقامی صنعتوں کو نقصان پہنچانے والی بات درست نہیں بلکہ سندھ کے لئے ایک سے زائد زون ہیں۔ آفتاب احمد خان شیرپائو کے ضمنی سوال پر انہوں نے کہا کہ اقتصادی زونز ’’اوپن فار آل‘‘ پالیسی کے تحت ہے۔ اس میں صرف چینی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری کی بات درست نہیں ہے۔

وزارت جائنٹ وینچر پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ انجینئر عثمان ترکئی کے ضمنی سوال پر انہوں نے کہا کہ چینی سولو فلائٹ سے متعلق کسی مفاہمت کی دستاویز پر دستخط نہیں ہوئے۔ مفاہمت کی جس دستاویز پر دستخط ہوئے ہیں وہ آئندہ اجلاس میں پیش کی جائیں گی۔ وزیر مملکت برائے خزانہ و اقتصادی امور رانا محمد افضل خان نے بتایا کہ جو لوگ ٹیکس ریٹرن وقت پر جمع نہیں کرتے انہیں نوٹس دیئے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری رہتا ہے اور اس عمل کے تحت ٹیکس ریٹرن اور ٹیکس کے نظام کو آسان بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشاورتی عمل کے تحت اب ایک صفحہ پر مشتمل فارم بنائے گئے ہیں اگر کہیں کوئی ہراسمنٹ ہو رہی ہے تو اس کا ازالہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اب اس نظام کی بہتری کے لئے آٹومیشن کی طرف جارہی ہے جس سے ٹیکس کی بنیاد اور محاصل میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔اجلاس کے دور ان ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے ملک میں مذہبی تنظیموں کی مجموعی تعداد‘ کسی تنظیم کو کالعدم قرار دینے کے لئے معیار اور کالعدم قرار دینے والی اتھارٹی سے متعلق آسیہ ناز تنولی کا سوال کابینہ ڈویژن کے پاس بھیج دیا۔