محمد بن سلمان کی شاہانہ زندگی اور متنازعہ فیصلے کس طرح سے سعودی عرب کی معشیت پر اثر ڈال سکتے ہیں

Sadia Abbas سعدیہ عباس جمعرات 25 جنوری 2018 15:11

محمد بن سلمان کی شاہانہ زندگی اور متنازعہ فیصلے کس طرح سے سعودی عرب ..
ریاض (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔25جنوری2018ء) ان دو سعودی شہزادوں کو دیکھیے! محمد بن نیف 57 سالہ تاج پوش شہزادے ہیں اور 32 سالہ محمد بن سلمان محمد بن نیف کے چھوٹے کزن ہیں جو کہ انکا ہاتھ چوم رہے ہیں جبکہ محمد بن نیف محمد بن سلمان کی بیعت کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں جو کہ بن نیف سے آدھی عمر کے ہیں ۔ محمد بن نیف کو زبردستی اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کے لیے کہا گیا تھا اور اپنا عہدہ اپنے چھوٹے کزن کو سونپنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

یہ محمد بن سلمان ہیں جسے مغرب میں ہم "ایم بی ایس" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ گزشتہ سال جون کا وقت تھا جب سے محمد بن سلمان نے اپنے طاقت کو مضبوطی اور تیزی سے بڑھانا شروع کیا کہ اب سعودی عرب میں سب انھیں "Mr. Every thing" مطلب "سب کا کرتا دھرتا" کے نام سے جاننے لگے ہیں۔

(جاری ہے)

جب سے ایم بی ایس نے عہدہ سنبھالا ہے وہ اپنے اردگرد کے ممالک پر اپنا نمایاں اثر چھوڑ رہے ہیں ۔

ایم بی ایس کی سب پالیسیوں میں سے اہم ترین پالیسی اپنے ہمسائیہ ملک ایران سے متعلق بنائی جانے والی مخالفانہ پالیسی ہے۔ امریکہ کے وائٹ ہاوس میں یہ ایک اچھے ساتھی کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ میں سعودی عرب میں بھی شاہی خاندان پر دن بدن غلبہ پا رہے ہیں۔ شہزادہ سلمان نے کرپشن کے الزام میں شاہی خاندان کے کئی شہزادوں کی گرفتاریوں کے احکامات جاری کیے ہیں۔

شاہ سلمان کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے11 شہزادوں اور 40 سے زائد وزراء کو گرفتار کیا گیا ۔ ان گرفتار شدگان افراد کے لیے رٹز کارٹر ہوٹل کوبطور جیل استعمال کرتے ہوئے ان کے کرپشن کے کیسز سے متعلق شاہ سلمان نے خود کو ہی انکا سربراہ بنایا۔ اس کے علاوہ شاہ سلمان وہ ہی شخص ہیں جسنے گزشتہ سال دنیا کا سب سے مہنگا گھرخریدا ہے جسکی لاگت 300 ملین ڈالر ہے اور یہی وہ انسان بھی ہیں جس نے 450 ملین ڈالر ایک پینٹنگ پر خرچ کر ڈالے تھے۔

سب سے اہم بات یہ کہ سعودی خاندان ایسے افراد سے بھرا پڑا ہے جو کہ عوام کا پیسہ اپنے مفاد اور عیش و آرام کے لیے استعمال کرتا ہے جو کہ ایندھن کے منافع سے حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے ایم بی ایس کے لیے بھی کسی کا بھی کریک ڈاون کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ وہ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ کسی کا بھی سر کچل سکیں ۔ طاقت میں آتے ہی ایم بی ایس نے دوسرا بڑھا جو کام کیا اور سعودی عرب کے سماجی رویوں میں تبدیلی لانا ہے۔

جس میں مذہبی پولیس سے کسی کو بھی مذہب کے نام پر گرفتار کرنے کے حقوق سے دستبردار کرنا ہے اور خواتین کے حقوق سے متعلق لوگوں میں آگاہی بڑھانا ہے ،جس میں سب سے اہم خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا عمل شامل ہے۔ اس کے علاوہ سعودی معاشرے کو ترقی اور جدت کے طرف لے جانے سے متعلق بہت سے اقدامات شامل ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق کرپشن کے خلاف کریک ڈاون شہزادہ سلمان کی مزید طاقت حاصل کرنے کی حرص ہے۔

سعودی معاشرہ شاہی خاندان کی جانب سے لاگو کردہ کچھ قواعد و ضوابط پر مشتمل ہے اور ان قواعد ضوابط کو بنانے میں بڑا نام "سعود" خاندان کا آتا ہے جن کو یہ قواعد و ضوابط وہابی علماء کی جانب سے وراثت میں دئیے گئے تھے۔ ان دونوں کی ایک دوسرے سے وفاداری نے مل کر سعودی معاشرے کی موجود سعودی اقدار کو بنایا ہے۔ لیکن شہزادہ سلمان نے بڑی عقلمندی سے سعودی خاندان کی مذہبی اقدار کو نظر انداز کر کے مغربی معاشرے کی اقدار کو اپنایا ہے اور سعودی معاشرے میں اپنے مذہبی رجحان کو بھی ختم نہیں ہونے دیا اور یہ وہ چیز ہے جس کی وجہ سے سعودی معاشرے میں انتے آرام سے صدیوں کے رسم ورواج میں تبدیلی آئی ہے۔

لیکن اب "ایم بی ایس " نے اپنی خاندانی اقدار کو نظر انداز کیا ہے جو کہ سعودی معاشرے میں اتھل پتھل مچا سکتی ہے۔ شہزادہ سلمان کا معشیت کو لے کراہم فیصلہ ہے کہ جومعشیت ایندھن سے حاصل ہونے والے منافع سے چل رہی تھی اس پر انحصار 2030 تک مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ شہزادہ سلمان نے لاتعداد سعودی شعبوں میں سعودائزیشن کے بھی احکامات جاری کر دئیے ہیں جہاں غیر ملکیوں پر کام کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق اتنی بڑی تبدیلی سعودی معشیت پر گہرا اثر چھوڑ سکتی ہے۔ سعودی عرب کا کنگ تاریخ کی سب سے بڑے تبدیلیاں لا رہا ہے جو کہ جہاں سعودی عرب کی معشیت کے لیے ایک اچھا پہلو ہو سکتا ہے وہیں سعودی معشیت ایک لیے ایک بڑا خطرہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ سعودی شہریوں کے رہن سہن کو تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم ان فیصلوں کا اچھا پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب "عرب ممالک" کی سب سے بڑی طاقت بن کے سامنے آ جائے۔