زینب قتل کیس میں عمران سے قبل زیر حراست 13 افراد نے اعتراف جُرم کیا

حساس اداروں کی بروقت مداخلت پر کسی بے گناہ کے سر پر الزام نہیں ڈالا گیا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 24 جنوری 2018 16:16

زینب قتل کیس میں عمران سے قبل زیر حراست 13 افراد نے اعتراف جُرم کیا
قصور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24 جنوری 2018ء) : قصور میں گذشتہ روز پولیس نے زینب کے قاتل عمران عرُف مانا کو گرفتار کر لیا ۔ عمران کی گرفتاری پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پولیس کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے انہیں شاباشی دی ۔ قومی اخبار میں شائع ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ عمران کی گرفتاری سے قبل زیر حراست 13 افراد اعتراف جُرم کر چکے تھے لیکن حساس اداروں کی مداخلت پر کسی بے گناہ کے سر پر یہ الزام نہیں ڈالا گیا۔

حساس اداروں نے ڈی این اے ٹیسٹ سے قبل ہی عمران کی نگرانی شروع کر رکھی تھی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ انوسٹی گیشن ٹیم کی نظر میں اعتراف جُرم کرنے والے 13 زیر حراست افراد ہی مجرم تھے لیکن حساس اداروں نے خود معاملے میں دلچسپی لی اور کسی بے گناہ کے سر یہ الزام آنے سے روک لیا۔

(جاری ہے)

انکشافات میں مزید یہ بات سامنے آئی کہ عمران نے زینب سمیت 8 بچیوں کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا تھا اور ہر واردات کے بعد وہ تین مختلف شہروں میں کچھ وقت گزار کر آتا تھا۔

ان شہروں میں لاہور، شیخوپورہ ، ساہیوال اورپاکپتن شامل ہیں۔ ملزم عمران نے تمام وارداتیں ایک زیر تعمیر مکان میں کیں ، واردات سے دو یا تین روز قبل زیر تعمیر مکان کے چکر لگا کر وہاں جگہ بناتا اور اس کے بعد بچیوں کو اغوا کر کے اُسی مکان میں لے جاتا۔ جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد بچی کو قتل کرتا اور کچھ دیر تک لاش وہیں رکھتا، پھر صبح فجر سے قبل لاش شہر کے کسی مقام پر بھی پھینک دیتا تھا۔

کچھ دن قبل جب تحقیقاتی ٹیم نے اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا اور شناختی کارڈ طلب کیا تو ملزم نے بتایا کہ اس کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے، ملزم نے اپنا نام عمران علی لکھوایا۔اس وقت ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے سو سے زائد افراد موجود تھے ۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے وقت بھی عمران شور مچاتا رہا کہ پولیس جان بوجھ کر محلہ داروں کو تنگ کر رہی ہے۔ ایسا کرنے سے اس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ محلہ داروں کی ترجمانی کر رہا ہے۔

14 جنوری سے قبل جب پولیس نے شک کی بنا پر عمران کو گرفتار کیا تو یہ کہہ کر4 گھنٹوں بعد ہی رہا کر دیا کہ یہ بیمار آدمی ہے۔ عمران کو دوبارہ گرفتار تب کیا گیا جب تفتیشی ٹیم کو 14 اور 20 جنوری کو لیے گئےڈی این اے ٹیسٹ سے متعلق بتایا گیا۔ پولیس اور تفتیشی ٹیم نے فوری طور پر عمران کا میچ ہوا ڈی این اے دیکھا اور اس کو اس کے گھر ہی سے گرفتار کر لیا۔

عمران کے ساتھ اس کے گھر سے بھی کئی افراد کو حراست میں لے کر نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ عمران سے تفتیشی عمل 4 گھنٹوں میں ہی مکمل ہو گیا جس کے بعد جے آئی ٹی نے ثبوت اکٹھے کر کےمیڈیا کو آگاہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی میں سب سے اہم کام آئی ایس آئی اور ایم آئی نے کیا۔دونوں حساس اداروں نے ڈی این اے ٹیسٹ سے قبل ہی عمران کی نگرانی شروع کر رکھی تھی، اس کے علاوہ کئی ایسے شواہد بھی اکٹھا کر رکھے تھے جو عمران ہی کے ملزم ہونے کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ ڈی این اے ٹیسٹ میں تصدیق ہوتے ہی عمران کو گرفتار کرلیا گیا ۔ عمران نے گھر کے قریب موجود ایک زیر تعمیر مکان میں زینب کوجنسی ہوس کا نشانہ بنایا البتہ اس کے دوستوں یا اہل خانہ میں سے کوئی بھی اس جُرم میں ملوث نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :