پاکستان میں پانی پینے کے قابل نہیں ہے ،ْوفاقی وزیر رانا تنویر حسین کا اعتراف

ملک بھر میں سروے کرایا جس میں سے صرف 31 فیصد پانی کے سیمپل درست پائے گئے‘ شہری علاقوں میں 41 فیصد پینے کا پانی دستیاب ہے‘ قومی اسمبلی میں ہمیں جوابدہ بنانا ہے تو ہمیں اختیارات بھی ملنے چاہئیں ،ْاٹھارہویں ترمیم پر ہمیں نظرثانی کرنا ہوگی ،ْ پانی کا معیار بہتر بنانے کے لئے 130 فیکٹریاں بند کی ہیں ،ْبڑی کمپنیوں پر ہماری کڑی نظر ہے ،ْصرف انگلی ہلانا آسان ہے ،ْہمیں عملی اقدامات کے لئے مل کر آگے بڑھنا ہوگا ،ْقومی اسمبلی میں اظہار خیال

بدھ 24 جنوری 2018 16:01

پاکستان میں پانی پینے کے قابل نہیں ہے ،ْوفاقی وزیر رانا تنویر حسین ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 جنوری2018ء) وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے اعتراف کیا ہے کہ درست ہے پاکستان میں پانی پینے کے قابل نہیں ہے‘ ملک بھر میں سروے کرایا جس میں سے صرف 31 فیصد پانی کے سیمپل درست پائے گئے‘ شہری علاقوں میں 41 فیصد پینے کا پانی دستیاب ہے‘ قومی اسمبلی میں ہمیں جوابدہ بنانا ہے تو ہمیں اختیارات بھی ملنے چاہئیں ،ْاٹھارہویں ترمیم پر ہمیں نظرثانی کرنا ہوگی ،ْ پانی کا معیار بہتر بنانے کے لئے 130 فیکٹریاں بند کی ہیں ،ْبڑی کمپنیوں پر ہماری کڑی نظر ہے ،ْصرف انگلی ہلانا آسان ہے ،ْہمیں عملی اقدامات کے لئے مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں شیخ صلاح الدین کے ملک میں 80 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک دسترس نہ ہونے کے حوالے سے توجہ مبذول نوٹس کا جواب دیتے ہوئے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ پی سی آئی ایس آر ریسرچ کا ادارہ ہے ،ْیہ بات درست ہے کہ پاکستان میں پینے کا پانی پینے کے قابل نہیں ہے ،ْیہ ادارہ ملک سے سیمپل لے کر ذمہ دار اداروں کو رپورٹ بھیجتے رہتے ہیں ،ْاٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ معاملہ صوبوں کو چلا گیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ میں نے وزراء اعلیٰ کو لکھا ہے اس معاملے پر توجہ دی جائے اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں ،ْ اس طرح سی ڈی اے کو بھی گاہے بگاہے بتاتے رہتے ہیں ،ْہم نے ملک بھر میں سروے کرایا جس میں سے صرف 31 فیصد پانی کے سیمپل درست پائے گئے ،ْڈبلیو ایچ او کے ساتھ مل کر ہم نے ایک سروے کرایا ،ْشہری علاقوں میں 41 فیصد پینے کا پانی دستیاب ہے ،ْدیہی علاقوں کی اوسط مختلف ہے۔

آنے والے دس سالوں میں پانی کی قلت اور دیگر امور پر رپورٹس باقاعدگی سے صوبوں کو بھجوائی جاتی ہیں ،ْتوجہ مبذول نوٹس پر شیخ صلاح الدین ‘ کشور زہرہ‘ ساجد احمد اور عبدالوسیم کے سوالات کے جواب میں وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ پی ایس کیو سی اے کی ذمہ داری ہے کہ بوتل والے پانی کا معیار برقرار رکھیں۔ وزارت کا چارج سنبھالنے کے بعد میں نے اس ادارے کو ہدایت کی کہ 109 آئٹم جو عوام استعمال کرتے ہیں ان میں دودھ‘ گھی اور پینے کے پانی کا معیار بہتر بنایا جائے۔

پانی کا معیار بہتر بنانے کے لئے 130 فیکٹریاں بند کی ہیں ،ْبڑی کمپنیوں پر ہماری کڑی نظر ہے۔ ٹی وی پروگراموں کے ذریعے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کو بتایا جائے کہ کون سا پانی پینے کے قابل ہے۔ پی ایس کیو سی اے کی استعداد کار بھی بڑھائی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں کا ہمیں تعاون دستیاب نہیں ہے۔ ہم نے اس ادارے کو وفاقی سطح پر سیکیورٹی فورس کی فراہمی کے لئے وزارت داخلہ سے درخواست کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی صوبوں اور بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ہماری ذمہ داری بوتلوں کے پانی کو معیار کے مطابق بنانا ہے اس سلسلے میں ہم اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہمیں صوبوں میں کام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اگر قومی اسمبلی میں ہمیں جوابدہ بنانا ہے تو ہمیں اختیارات بھی ملنے چاہئیں ،ْاٹھارہویں ترمیم پر ہمیں نظرثانی کرنا ہوگی۔

اگر ایک ترمیم کی ہے تو جہاں جہاں اس میں کمزوریاں ہیں وہ دور کرنے کے حوالے سے ترمیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ صرف انگلی ہلانا آسان ہے۔ ہمیں عملی اقدامات کے لئے مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ انگلی ہلانا تو آج کل اور بھی خطرناک ہے کیونکہ لوگ امپائر کی انگلی کی بات کرتے ہیں۔