انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 سے متعلق کیس:سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو پر مکمل پابندی عائد کردی گئی،

عدالت نے نوازشریف سمیت تمام فریقین کو نوٹسزجاری کردئیے،کیس کی سماعت چھ فروری تک ملتوی،ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھاجائے،چیف جسٹس کے ریمارکس

منگل 23 جنوری 2018 18:29

انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 سے متعلق کیس:سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 جنوری2018ء) سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 سے متعلق کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو پر مکمل پابندی عائد کردی ہے، جبکہ عدالت نے نوازشریف سمیت تمام فریقین کو نوٹسزجاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت چھ فروری تک ملتوی کردی ہے، انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھاجائے، راجہ ظفر الحق صاحب بڑے پارلیمیٹیرین ہیں، راجہ صاحب کو معلوم ہے ہم پارلیمیٹیرین کی کتنی عزت کرتے ہیں، اس ادارے کوبھی چاہیے ہماری عزت برقرار رکھے، چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو نہیں ہو گی، منگل کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی تو، چیف جسٹس نے راجہ ظفر الحق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گڈ ٹو سی یو راجہ صاحب بہت عرصے بعد آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی ہے،راجہ ظفر الحق نے کہا کہ جمعہ کے روز شام کو ہمیں اس کیس کا علم ہوا، ہمیں اس کیس کے لیے دو ہفتوں کا وقت دیا جائے وکیل ذوالفقار بھٹہ نے کہا کہ میں بھی اس کیس میں درخواست گزار ہوں، چند دن پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ بھٹہ صاحب میری عدالت میں اپنی خبر کے لیے بات مت کریں، شیخ رشید احمد کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ نواز شریف کی پارٹی صدارت کے خلاف عبوری حکم کے لیے درخواست دی یے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتا دیں کیا اسمبلی کی قانون سازی پر حکم امتناعی دیا جا سکتا ہے یا نہیں،ن فروغ نسیم نے کہا کہ نواز شریف ترمیم کے نتیجے میں پارٹی سربراہ بنے ہیں، فروغ نسیم نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت آئندہ سماعت پر دونوں فریقین کو کیس ملتوی کرنے کی اجازت نہ دے، چیف جسٹس نے کہا کہ باہر تقاریر اچھی ہوتی ہیں، جو مقرر ہیں وہ خود ہی کیس لڑیں، خواجہ سعد رفیق اچھے مقرر ہیں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ باہر ہم سعد رفیق صاحب کو سنتے رہتے ہیں لیکن وہاں ہم بول نہیں سکتے، یہاں سعد رفیق کو سن کر ہم بھی بات کرینگے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں سپریم کورٹ کے باہر گفتگو نہیں ہوگی چیف جسٹس نے کہا کہ پرویز رشید صاحب تقریر توکرتے ہیں مگر شفقت اور پیار سے، ہم حوصلہ دکھا رہے ہیں دکھاتے رہیں گے، نہیں چاہتے توجہ ہٹاکر دوسرے معاملات میں الجھ جائیں چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھاجائے، راجہ ظفر الحق صاحب بڑے پارلیمیٹیرین ہیں، راجہ صاحب کو معلوم ہے ہم پارلیمیٹیرین کی کتنی عزت کرتے ہیں، اس ادارے کوبھی چاہیے ہماری عزت برقرار رکھے، چیف جسٹس نے کہا کہ سعد رفیق کو قانون کی سوجھ بوجھ ہے ہم سنتے ہیں، ٹی وی پر آکر ہم ان کو جواب نہیں دے سکتے، سپریم کورٹ کادائرہ اختیار ہم نے طے کرنا ہے، سپریم کورٹ سے استدعاکی جاسکتی ہے دباؤ نہیں ڈالاجاسکتا، کچھ بھی کرناپڑے ادارے کی تکریم کم نہیں ہونے دیں گے،چیف جسٹس نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حاضری میں سعد رفیق کانام بولڈ کردیاجائے، چیف جسٹس کی بات پرعدالت میں قہقہے گونج اٹھے، چیف جسٹس نے کہا کہ قانونی بات ہے، کارروائی پیار سے چلے گی، پیپلزپارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ تو کہتے ہیں کہ ہم لوہے کے چنے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ٹی وی نہیں دیکھتے مگر ایسی بات ہم تک پہنچا دی جاتی ہیں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نواز شریف کی جانب سے کون پیش ہوگا، پرویز رشید نے کہا کہ میں نواز شریف کی طرف سے پیش ہوں گا اس پر عدالت نے کیس کی سماعت چھ فروری تک ملتوی کرتے ہوئے اس کیس کے فریقین کو نوٹسزجاری کردیئے ہیں،. انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کیخلاف چئیرمین تحریک انصاف عمران خان، شیخ رشید، نیئر حسین بخاری سمیت دیگر افراد اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے، انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 میں ترمیم کے بعد نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہلی کے باوجود پارٹی صدر بنے تھی۔