زینب زیادتی کیس اور میڈیا کا کردار

ایوانوں سے لے کر دکانوں تک میڈیا نے سب کو جگا دیا کیا زینب کو انصاف میڈیا نے دلوایا؟ زینب کے قاتل کو قانون کے مطابق نہیں بلکہ عبرت ناک سزا دی جائے۔ قوم کا مطالبہ

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان منگل 23 جنوری 2018 15:47

زینب زیادتی کیس اور میڈیا کا کردار
قصور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 23 جنوری 2018ء): پاکستان کے مختلف شہروں میں کم سن بچیوں سے جنسی زیادتی کے واقعات اکثر ہی خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں کم سن بچی سے زیادتی کا ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جی ہاں! قصور کی 7 سالہ ننھی زینب سے جنسی زیادتی کا واقعہ، جنسی زیادتی اور تشدد کے بعد زینب کا بہیمانہ قتل اور کوڑے کے ڈھیر میں پڑی زینب کی لاش ، اس قوم کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے کافی تھی۔

زینب کی لاش کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کیں تو اس ننھی کلی کو انصاف دلوانے کے لیے ہر کوئی اپنے اپنے حصے کی جدو جہد کرنے لگا۔ سوشل میڈیا صارفین نے آواز اُٹھائی ، الیکٹرانک میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور یہاں تک کہ ملک کی شوبز انڈسٹری بھی اس واقعہ کے خلاف احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آئی۔

(جاری ہے)

زینب کی معصوم تصویر نے پوری قوم کو ایک ہی موقف پر اکٹھا کر دیا اور وہ موقف تھا '' زینب کو انصاف دو''۔

اس واقعہ کے بعد سے ہی قصور سمیت ملک بھر کے شہروں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پولیس نے زینب کے اغوا کیس پر کوئی توجہ نہ دی ، عین ممکن تھا کہ ان کے کان پر کوئی جوں نہ رینگتی اگر احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع نہ ہوتا۔ حکمران بھی مظاہروں سے ہی جاگے۔ سیاسی رہنماؤں نے بھی سوشل میڈیا پر معاملہ گرم ہونے کے بعد ہی مذمتی بیانات جاری کیے۔

اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہونے لگی۔ پولیس نے زینب قتل کیس کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ بھی کی ، جس کے نتیجے میں دو لوگ جان کی بازی ہارے اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس معاملے کو دبنے نہیں دیا اور مسلسل زینب کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے رہے۔ زینب کو انصاف دلوانے کے لیے پاکستانی قوم اور میڈیا تو اکٹھا ہوا ہی لیکن انٹر نیشنل میڈیا نے بھی زینب قتل کیس کو کوریج دی۔

سوشل میڈیا صارفین کے متواتر احتجاج نے زینب کو انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج اور ملزم کا خاکہ بارہا شئیر کیا جانے لگا۔ نجی ٹی وی کی اینکر زینب کو انصاف دلوانے اور حکمرانوں کو شرم دلوانے کے لیے اپنی ننھی سی بیٹی کو بلیٹن میں ساتھ لے آئیں ، اور احساس دلوایا کہ جو زینب کے ساتھ ہوا وہ کل کو میری یا آپ کی بیٹی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ، تو خدارا کچھ کیجئیے، زینب کو انصاف دلوائے تاکہ آئندہ کوئی بھی ہماری بیٹیوں اور بچیوں کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت نہ کرے۔

اس واقعہ کے بعد سے ہی جنسی ہراسگی کے خلاف آواز بلند ہوئی ، بچوں کو اس کے بارے میں تعلیم دئے جانے کی تجاویز پیش کی گئیں اور تو اور ر شوبز انڈسٹڑی کی کئی اداکاراؤں نے بھی جنسی ہراسگی کا نشانہ بننے کا انکشاف کیا جس نے معاشرے کے گھناؤنے چہرے سے پردہ اُٹھایا۔ اس خبر نے سیاسی حلقوں میں بھی ہل چل مچا دی اور پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیری مزاری کی بیٹی ایمان نے بھی بچپن میں جنسی ہراسگی کا شکار ہونے کا انکشاف کیا۔

لیکن سب کی جدوجہد بے کار نہیں گئی اور آج پولیس نے زینب قتل کیس کے مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا۔ 14 دنوں سے آزاد گھوم رہے ملزم کو آج پولیس نے دبوچ لیا۔ ملزم کی گرفتاری پر جہاں سب سے اطمینان کا سانس لیا وہیں یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ہماری پولیس کا نظام اتنا کمزور ہے کہ ایک ہزار 50 لوگوں کے ڈی این اے کروانے کے باوجود بھی قاتل اتنے دن تک قانون کی گرفت میں نہیں آسکا۔

زیادتی کے واقعات تو آئے روز رپورٹ ہوتے ہیں لیکن محض میڈیا کوریج نہ ملنے سے ان کو انصاف نہیں ملتا؟ آخر ایسا کیوں ہے؟ پولیس کو آخر تب ہی ہوش کیوں آتا ہے جب کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے، جب کوئی ننھی کلی پھول بننے سے پہلے ہی مُرجھا جاتی ہے، جب کوئی نوجوان والدین کے خواب پورے کرنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے، پولیس کو آخر تب ہی ہوش کیوں آتا ہے جب کوئی جواں سالہ بیٹی کی عزت لوٹ لیتا ہے ، جب کوئی راہ چلتے کسی کو بھی قتل کر کے فرار ہو جاتا ہے،کیوں سوشل میڈیا اور میڈیا پر خبر آنے اور پولیس کی کارکردگی پر سوالات اُٹھنے کے بعد ہی کوئی کارروائی کی جاتی ہے؟ سوشل میڈیا کی آوازوں سے ہی کیوں پولیس کو اپنے ''قوم کے محافظ'' ہونے کا ادراک ہوتا ہے ؟ زینب کے قاتل کو پکڑوانے اور زینب کا معاملہ کسی ردی کی فائل کے نذر نہ ہونے کا کریڈٹ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو ہی جاتا ہے جس نے آنے والے ہر دن پولیس ، سیاسی رہنماؤں اور ضلعی انتظامیہ تک کو یہ بھولنے نہیں دیا کہ زینب ہمیں یاد ہے اور ہم زینب کو انصاف دلوا کر رہیں گے۔

وہ سوشل میڈیا ہی تو ہے جس نے ایوانوں سے لے کر دکانوں تک سب کو جگا دیا۔اینب کے قاتل کی گرفتاری کے بعد اب بھی پوری قوم متحد ہے اور یہی مطالبہ کر رہی ہے کہ زینب کے قاتل کو عبرتناک سزا دے کر ایک مثال قائم کی جائے۔ ایک مثال قائم کی جائے ان لوگوں کے لیے ، ان درندوں م ان وحشیوں کے لیے جو حوا کی بیٹیوں کو نوچ کھاتے ہیں ، جو خوف خُدا نہیں رکھتے، جب کو ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کیا ہوتی ہے؟ کچھ معلوم نہیں ہے، جنہوں نے بچیوں کو کھلونا سمجھ رکھا ہے جس سے ہوس کے پُجاری اپنی پیاس بُجھاتے ہیں۔

پوری قوم کا مطالبہ ہے کہ ملزم کو ایسی سزا دی جائے کہ پھر کوئی کسی بچی کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھے، ایسی سزا کہ دوبارہ ایسے فعل کے انجام کا سوچ کر ٹانگیں کانپ جائیں ، ایسی سزا کہ جس کے بعد ملک کی ہر زینب محفوظ ہو ، اور ایسی سزا جو عرتناک حد تک عبرتناک ہو۔