پاکستان کے تازہ پانی کے وسائل میں کمی آئے گی اور بارشیں کبھی زیادہ کبھی کم ہوں گی، 2012ء میں حکومت نے پالیسی بنائی جس میں اہم چیزوں کی منظوری دی گئی ، قومی ڈرنکنگ واٹر پالیسی بھی بنائی گئی ہے ،صوبے اب اپنی پالیسیاں بنانے میں بااختیار ہیں، زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہئیں جہاں جنگل ہیں ان کی حفاظت کی جائے

وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اللہ کا ایوان بالا کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے اظہار خیال

پیر 22 جنوری 2018 22:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 جنوری2018ء) وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا ہے کہ پاکستان کے تازہ پانی کے وسائل میں کمی آئے گی اور بارشیں کبھی زیادہ کبھی کم ہوں گی، 2012ء میں حکومت نے پالیسی بنائی جس میں اہم چیزوں کی منظوری دی گئی ، قومی ڈرکنگ واٹر پالیسی بھی بنائی گئی ہے۔ صوبے اب اپنی پالیسیاں بنانے میں بااختیار ہیں، زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہئیں جہاں جنگل ہیں ان کی حفاظت کی جائے،پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے پانی کے ذخائر کو محفوظ کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو زیر بحث لانے کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا ہے کہ ماہرین کے مطابق پاکستان کے تازہ پانی کے وسائل میں کمی آئے گی اور بارشیں کبھی زیادہ کبھی کم ہوں گی، 2012ء میں حکومت نے پالیسی بنائی جس میں اہم چیزوں کی منظوری دی گئی۔

(جاری ہے)

قومی ڈرکنگ واٹر پالیسی بھی بنائی گئی ہے۔ صوبے اب اپنی پالیسیاں بنانے میں بااختیار ہیں۔ گلوبل وارمنگ سے گلیشیرز پگھلتے ہیں، ہمیں خریف میں پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ سیلاب بھی گیلشیئر کے پگھلنے سے اور ساتھ بارشیں ہونے سے آتے ہیں۔ درجہ حرارت بڑھنے پر دنیا بھر میں بحث ہو رہی ہے۔ پاکستان میں جنگلات پر توجہ دے کر اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے بجٹ کا 8 فیصد ماحولیات سے متعلق مسئلے سے نمٹنے کے لئے خرچ ہو رہا ہے۔ ہم ماحولیاتی تبدیلی کے ذمہ دار نہیں، اس کے ذمہ دار وہ ہیں جو اس حوالے سے پیسہ خرچ نہیں کر رہے۔ ترقی پذیر ملکوں کے پاس اس مسئلے کے لئے فنڈز نہیں ہیں جو کوئلے کے استعمال سے بہت امیر ہوئے ہیں۔ ان کو اب اس مسئلے کے حل کے لئے خرچ کرنا چاہئے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہئیں جہاں جہاں جنگل ہیں ان کی حفاظت کریں، فوج کو بھی اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

دنیا بھر میں فوج اس طرح کے کام کرتی ہے۔ یہ سماجی و انسانی مسئلہ ہے۔ پورے معاشرے کو اس کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایک ارب درخت لگانے کی خالی باتیں نہ کی جائیں، ایک ارب درخت لگ جائیں تو گرمیوں میں بھی برف باری ہوگی۔ واٹر مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔قبل ازیں سینٹ اجلاس میں کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم اور فصلوں کے وقت تبدیل ہو رہے ہیں، ملک میں آبی ذخائر کے لئے چھوٹی جھیلیں بنانے کی ضرورت ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں کے معاملے پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، دنیا اس پر بہت خرچ کر رہی ہے۔

سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ 94 برسوں میں چناب اور جہلم میں سب سے کم پانی اس وقت ہے۔ اسی طرح کابل اور سندھ میں بھی پچاس برسوں کے دوران سب سے کم پانی ہے۔ 1960ء میں تربیلا اور منگلا ڈیم بنائے گئے لیکن دونوں ڈیموں میں اس وقت پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ایک تہائی کم ہو گئی ہے۔

اسی طرح دستیاب پانی کی شرح بھی کم ہو گئی ہے۔ امریکہ میں 900 دنوں، جنوبی افریقہ 500 دنوں اور جرمنی میں ایک ہزار دنوں اور ہندوستان میں 180 جبکہ پاکستان میں 20 دنوں کا ذخیرہ ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ماہرین کہتے ہیں کہ 35 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں جانا ضروری ہے۔ بھاشا ڈیم کئی سال تک بھرا نہیں جا سکے گا، پانی ہے نہیں تو ڈیم بنا کر کیسے بھریں گے۔

صحراء میں زیر زمین بہت زیادہ پانی ہے۔ اس پر کراچی یونیورسٹی بہت کام کر رہی ہے۔ کراچی میں 12 لاکھ آبادی سمندر کا پانی پی رہی ہے۔ گوادر میں 2 ملین گیلن کا پلانٹ لگا ہے تاہم مل نہیں رہا، گوادر میں سندھ حکومت کی جانب سے 5 پلانٹس دینے کی ہم نے پیشکش کی تھی۔ ٹیکنالوجی کی مدد لے کر صحرا سے ہم اتنا پانی حاصل کر سکتے ہیں کہ ہمیں پانی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سعود مجید نے کہا کہ ہم جب اپنے علاقوں میں جاتے ہیں تو پانی کی کمی کی باتیں لوگ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس ذخائر ہوں گے تو ہم پانی دے سکیں گے۔ دو تین اور بڑے آبی ذخائر بنانے کی ضرورت ہے۔ سب کو مل کر پانی کے حوالے سے قومی پالیسی بنانی چاہئے کیونکہ حکومتیں پانچ سال کے لئے آتی ہیں۔ سینیٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانے کی ضرورت ہے، پانی ہوگا تو ڈیم بنائیں گے۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ پانی نہ ہونے سے مختلف ذرخیز علاقے صحراء میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے، بلوچستان بھی اس مسئلے سے متاثر ہے۔ سسی پلیجو نے کہا کہ ٹھٹھہ میں پینے کا پانی نہیں ہے۔ سندھ کے پانی کے مسئلے پر بھی توجہ دی جائے۔ سینیٹر مختار عاجز دھامرہ نے کہا کہ پانی کے معاملے پر کوئی مطمئن نہیں ہے۔

ارسا پانی کی تقسیم میں انصاف نہیں کر رہا۔ سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ حکومت پر الزام عائد کرنے کی بجائے پانی کو ضائع کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ آبیانے کی شرح بہت کم ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ٹیوب ویل کا پانی بہت مہنگا پڑتا ہے۔ آبیانہ کی شرح بڑھائی جائے۔ سینیٹر میر کبیر شاہی نے کہا کہ دس سال میں پہلی بار بلوچستان کے زمینداروں کو ان کا حق ملا ہے کیونکہ حکومت نے پیاز درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی۔ حکومت بلوچستان کے لئے بیل آئوٹ پیکیج دے جس کے تحت بلوچستان میں ڈیم بنائے جائیں۔

متعلقہ عنوان :