ماہرین کے مطابق پاکستان کے تازہ پانی کے وسائل میں کمی آئے گی اور بارشیں کبھی زیادہ کبھی کم ہوں گی، 2012ء میں حکومت نے پالیسی بنائی جس میں اہم چیزوں کی منظوری دی گئی‘ وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد حسین سید کا ایوان بالا میں اظہار خیال

پیر 22 جنوری 2018 20:53

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 جنوری2018ء) وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد حسین سید نے پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے پانی کے ذخائر کو محفوظ کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو زیر بحث لانے کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا ہے کہ ماہرین کے مطابق پاکستان کے تازہ پانی کے وسائل میں کمی آئے گی اور بارشیں کبھی زیادہ کبھی کم ہوں گی، 2012ء میں حکومت نے پالیسی بنائی جس میں اہم چیزوں کی منظوری دی گئی۔

قومی ڈرکنگ واٹر پالیسی بھی بنائی گئی ہے۔ صوبے اب اپنی پالیسیاں بنانے میں بااختیار ہیں۔ گلوبل وارمنگ سے گلیشیرز پگھلتے ہیں، ہمیں خریف میں پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ سیلاب بھی گیلشیئر کے پگھلنے سے اور ساتھ بارشیں ہونے سے آتے ہیں۔

(جاری ہے)

درجہ حرارت بڑھنے پر دنیا بھر میں بحث ہو رہی ہے۔ پاکستان میں جنگلات پر توجہ دے کر اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے بجٹ کا 8 فیصد ماحولیات سے متعلق مسئلے سے نمٹنے کے لئے خرچ ہو رہا ہے۔ ہم ماحولیاتی تبدیلی کے ذمہ دار نہیں، اس کے ذمہ دار وہ ہیں جو اس حوالے سے پیسہ خرچ نہیں کر رہے۔ ترقی پذیر ملکوں کے پاس اس مسئلے کے لئے فنڈز نہیں ہیں جو کوئلے کے استعمال سے بہت امیر ہوئے ہیں۔ ان کو اب اس مسئلے کے حل کے لئے خرچ کرنا چاہئے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہئیں جہاں جہاں جنگل ہیں ان کی حفاظت کریں، فوج کو بھی اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

دنیا بھر میں فوج اس طرح کے کام کرتی ہے۔ یہ سماجی و انسانی مسئلہ ہے۔ پورے معاشرے کو اس کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایک ارب درخت لگانے کی خالی باتیں نہ کی جائیں، ایک ارب درخت لگ جائیں تو گرمیوں میں بھی برف باری ہوگی۔ واٹر مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔