ملک میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے
ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کا اظہار خیال
پیر 22 جنوری 2018 20:53
(جاری ہے)
اسی طرح کابل اور سندھ میں بھی پچاس برسوں کے دوران سب سے کم پانی ہے۔ 1960ء میں تربیلا اور منگلا ڈیم بنائے گئے لیکن دونوں ڈیموں میں اس وقت پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ایک تہائی کم ہو گئی ہے۔
اسی طرح دستیاب پانی کی شرح بھی کم ہو گئی ہے۔ امریکہ میں 900 دنوں، جنوبی افریقہ 500 دنوں اور جرمنی میں ایک ہزار دنوں اور ہندوستان میں 180 جبکہ پاکستان میں 20 دنوں کا ذخیرہ ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ماہرین کہتے ہیں کہ 35 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں جانا ضروری ہے۔ بھاشا ڈیم کئی سال تک بھرا نہیں جا سکے گا، پانی ہے نہیں تو ڈیم بنا کر کیسے بھریں گے۔ صحراء میں زیر زمین بہت زیادہ پانی ہے۔ اس پر کراچی یونیورسٹی بہت کام کر رہی ہے۔ کراچی میں 12 لاکھ آبادی سمندر کا پانی پی رہی ہے۔ گوادر میں 2 ملین گیلن کا پلانٹ لگا ہے تاہم مل نہیں رہا، گوادر میں سندھ حکومت کی جانب سے 5 پلانٹس دینے کی ہم نے پیشکش کی تھی۔ ٹیکنالوجی کی مدد لے کر صحرا سے ہم اتنا پانی حاصل کر سکتے ہیں کہ ہمیں پانی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ سعود مجید نے کہا کہ ہم جب اپنے علاقوں میں جاتے ہیں تو پانی کی کمی کی باتیں لوگ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس ذخائر ہوں گے تو ہم پانی دے سکیں گے۔ دو تین اور بڑے آبی ذخائر بنانے کی ضرورت ہے۔ سب کو مل کر پانی کے حوالے سے قومی پالیسی بنانی چاہئے کیونکہ حکومتیں پانچ سال کے لئے آتی ہیں۔ سینیٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانے کی ضرورت ہے، پانی ہوگا تو ڈیم بنائیں گے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ پانی نہ ہونے سے مختلف ذرخیز علاقے صحراء میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے، بلوچستان بھی اس مسئلے سے متاثر ہے۔ سسئی پلیجو نے کہا کہ ٹھٹھہ میں پینے کا پانی نہیں ہے۔ سندھ کے پانی کے مسئلے پر بھی توجہ دی جائے۔ سینیٹر مختار عاجز دھامرہ نے کہا کہ پانی کے معاملے پر کوئی مطمئن نہیں ہے۔ ارسا پانی کی تقسیم میں انصاف نہیں کر رہا۔ سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ حکومت پر الزام عائد کرنے کی بجائے پانی کو ضائع کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ آبیانے کی شرح بہت کم ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ٹیوب ویل کا پانی بہت مہنگا پڑتا ہے۔ آبیانہ کی شرح بڑھائی جائے۔ سینیٹر میر کبیر شاہی نے کہا کہ دس سال میں پہلی بار بلوچستان کے زمینداروں کو ان کا حق ملا ہے کیونکہ حکومت نے پیاز درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی۔ حکومت بلوچستان کے لئے بیل آئوٹ پیکیج دے جس کے تحت بلوچستان میں ڈیم بنائے جائیں۔متعلقہ عنوان :
مزید اہم خبریں
-
وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب کا امکان
-
بحیرہ احمر میں جبوتی کے ساحل کے قریب 77 افراد کو لے جانے والی کشتی الٹ گئی 23 افراد ہلاک جبکہ21 لاپتہ ہیں.اقوام متحدہ
-
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران پاک ایران گیس پائپ لائن کا تذکرہ سامنے نہیں آسکا
-
نواز شریف نے قمر باجوہ کو مدت ملازمت میں دوسری توسیع کی یقین دہانی کرائی تھی
-
حکومت کے معاشی اشاریوں میں بہتری کے دعوﺅں میں کتنی حقیقت ہے؟ماہانہ اعداد و شمار کو بنیاد بناکرنہیں کہا جا سکتا کہ بہتری آچکی ہے.معاشی ماہرین
-
صدر زرداری سے ائیر ایشیا ایوی ایشن گروپ کی ملاقات
-
عدالت نے علیمہ خان کی عبوری ضمانت کی درخواست منظور کرلی
-
سعودیہ سے دیر آنے والی خاتون 22 سالہ نوجوان کے ساتھ لاپتا، تلاش شروع
-
ایرانی صدر کا دورہ کراچی، (کل) صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
-
کم سے کم اجرت 32000 ہے ، عمل نہ کرنے والے اداروں کے خلاف کارروائی کی جائیگی ، وزیرخزانہ
-
مجھے مسلم لیگ ن سے کیوں نکالا گیا؟ اس کی وجہ شہباز شریف پسند نہیں کرتے تھے
-
اٹک ریفائنری بند ہونے کے دہانے پر
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.