ملک میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے

ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کا اظہار خیال

پیر 22 جنوری 2018 20:53

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 جنوری2018ء) ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ ملک میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم اور فصلوں کے وقت تبدیل ہو رہے ہیں، ملک میں آبی ذخائر کے لئے چھوٹی جھیلیں بنانے کی ضرورت ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں کے معاملے پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، دنیا اس پر بہت خرچ کر رہی ہے۔

سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ 94 برسوں میں چناب اور جہلم میں سب سے کم پانی اس وقت ہے۔

(جاری ہے)

اسی طرح کابل اور سندھ میں بھی پچاس برسوں کے دوران سب سے کم پانی ہے۔ 1960ء میں تربیلا اور منگلا ڈیم بنائے گئے لیکن دونوں ڈیموں میں اس وقت پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ایک تہائی کم ہو گئی ہے۔

اسی طرح دستیاب پانی کی شرح بھی کم ہو گئی ہے۔ امریکہ میں 900 دنوں، جنوبی افریقہ 500 دنوں اور جرمنی میں ایک ہزار دنوں اور ہندوستان میں 180 جبکہ پاکستان میں 20 دنوں کا ذخیرہ ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ماہرین کہتے ہیں کہ 35 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں جانا ضروری ہے۔ بھاشا ڈیم کئی سال تک بھرا نہیں جا سکے گا، پانی ہے نہیں تو ڈیم بنا کر کیسے بھریں گے۔

صحراء میں زیر زمین بہت زیادہ پانی ہے۔ اس پر کراچی یونیورسٹی بہت کام کر رہی ہے۔ کراچی میں 12 لاکھ آبادی سمندر کا پانی پی رہی ہے۔ گوادر میں 2 ملین گیلن کا پلانٹ لگا ہے تاہم مل نہیں رہا، گوادر میں سندھ حکومت کی جانب سے 5 پلانٹس دینے کی ہم نے پیشکش کی تھی۔ ٹیکنالوجی کی مدد لے کر صحرا سے ہم اتنا پانی حاصل کر سکتے ہیں کہ ہمیں پانی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سعود مجید نے کہا کہ ہم جب اپنے علاقوں میں جاتے ہیں تو پانی کی کمی کی باتیں لوگ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس ذخائر ہوں گے تو ہم پانی دے سکیں گے۔ دو تین اور بڑے آبی ذخائر بنانے کی ضرورت ہے۔ سب کو مل کر پانی کے حوالے سے قومی پالیسی بنانی چاہئے کیونکہ حکومتیں پانچ سال کے لئے آتی ہیں۔ سینیٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانے کی ضرورت ہے، پانی ہوگا تو ڈیم بنائیں گے۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ پانی نہ ہونے سے مختلف ذرخیز علاقے صحراء میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے، بلوچستان بھی اس مسئلے سے متاثر ہے۔ سسئی پلیجو نے کہا کہ ٹھٹھہ میں پینے کا پانی نہیں ہے۔ سندھ کے پانی کے مسئلے پر بھی توجہ دی جائے۔ سینیٹر مختار عاجز دھامرہ نے کہا کہ پانی کے معاملے پر کوئی مطمئن نہیں ہے۔

ارسا پانی کی تقسیم میں انصاف نہیں کر رہا۔ سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ حکومت پر الزام عائد کرنے کی بجائے پانی کو ضائع کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ آبیانے کی شرح بہت کم ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ٹیوب ویل کا پانی بہت مہنگا پڑتا ہے۔ آبیانہ کی شرح بڑھائی جائے۔ سینیٹر میر کبیر شاہی نے کہا کہ دس سال میں پہلی بار بلوچستان کے زمینداروں کو ان کا حق ملا ہے کیونکہ حکومت نے پیاز درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی۔ حکومت بلوچستان کے لئے بیل آئوٹ پیکیج دے جس کے تحت بلوچستان میں ڈیم بنائے جائیں۔

متعلقہ عنوان :