خلیجی ممالک میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس 5 فیصد اور بیرونی ممالک میں 19فیصد لیا جارہا ہے

Sadia Abbas سعدیہ عباس پیر 22 جنوری 2018 15:51

خلیجی ممالک میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس 5 فیصد اور بیرونی ممالک میں 19فیصد لیا ..
ریاض (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار ۔22جنوری2018ء) مقامی ذرائع الشرق الاوسط کے کالم نگار ڈاکٹر عبداللہ الردادی کے مطابق خلیجی ممالک نے یکم جنوری 2018ءسے اشیاءاور خدمات پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس نافذ کردیاہے۔ اس طرح خلیجی ممالک ان 160ممالک کی فہرست میں شامل ہوگئے جہاںویلیو ایڈڈ ٹیکس لیا جارہا ہے۔ خلیجی ممالک اور خارجی ممالک کے درمیان اس حوالے سے جزوی اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔

ٹیکس کی شرح مختلف خدمات اور اشیاءپر دیئے جانے والے استثنیٰ جات وغیرہ کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس سعودی عرب سمیت خلیج کے بعض ممالک کیلئے کلیتاً نیا ہے۔خلیج کے کئی ممالک اپنے یہاں سیاحتی ٹیکس یا ہوٹل ٹیکس پہلے ہی سے لگائے ہوئے تھے۔ان میں متحدہ عرب امارات کا نام سرفہرست ہے۔

(جاری ہے)

بہر حال ویلیو ایڈڈ ٹیکس تاجروں اور صارفین کی دنیاﺅں میں تبدیلیوں کا باعث بنے گا۔

خلیجی ممالک سے قبل متعدد ممالک نے اپنے یہاں حال ہی میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا تجربہ شرو ع کیا۔ ملیشیا نے 2015اور چین نے 2014ءمیں یہ ٹیکس نافذ کیا۔ خلیجی ممالک نے اس کا آغاز 5فیصد سے کیا۔ یہ فی الوقت دنیا بھر میں رائج شرح (19فیصد) سے کافی کم ہے۔ 5فیصد شرح ان ممالک کے حوالے سے کافی مناسب اور قابل قبول ہے جہاں خلیج سے پہلے ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا نفاذ کیا گیا۔

مثال کے طور پر برطانیہ نے ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا نفاذ 1973ءمیں 10فیصد سے کیا تھا البتہ اس نے کھانے پینے کی اشیاء، کتابوں اور بچوں کے ملبوسات کو اس ٹیکس سے شروع میں استثنیٰ دیا تھاپھر گزشتہ صدی کے ساتویں عشرے میں اس کی شرح میںاضافہ کیا گیا۔ 2011ءمیں 17.5فیصد ،2012ءمیں 20فیصد تک ویلیو ایڈڈ ٹیکس لگایا گیا۔اُس وقت ذرائع ابلاغ نے تخمینہ دیا تھا کہ ایک برطانوی خاندان کو ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی مد میں سالانہ تقریباً520اسٹرلنگ پونڈ دینے ہونگے۔

گویا ایک خاندان روزانہ کی بنیاد پر 1.5اسٹرلنگ پونڈ ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے طور پر ادا کریگا۔ دنیا کے اکثر ممالک کی بنیادی آمدنی کا بڑا ذریعہ انواع و اقسام کے ٹیکس ہیں ۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس پوری دنیا میں قومی آمدنی کا 6.5فیصد بنتا ہے۔ مختلف قسم کے ٹیکسوں سے 34فیصد آمدنی ہورہی ہے۔ جہاں تک خلیجی ممالک کا تعلق ہے تو ان کے یہاں ویلیو ایڈڈ ٹیکس قومی پیداوار کا 1.4فیصد ہے۔

خلیجی اور عالمی سطحوں پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس میں پایاجانیوالا یہ فرق کیوں ہے ؟ اس کے2 بنیادی سبب ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ خلیجی ممالک میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس 5فیصد اور بیرونی دنیا میں 19فیصد لیا جارہا ہے۔ اسی وجہ سے غیر ممالک کو اس ٹیکس کی مد میں 6.5فیصد اور خلیجی ممالک کو 1.4فیصد کی آمدنی ہورہی ہے۔ دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ تیل کے وسائل کے باعث خلیجی ممالک کی قومی آمدنی دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نفاذ سے صارفین اور سرمایہ کار دونوں متاثر ہونگے۔جہاں تک صارفین کا تعلق ہے تو توقعات یہ ہیں کہ وہ بڑی حد تک اخراجات کو کنٹرول کرنے لگیں گے۔ ضروری نہیں کہ یہ تبدیلی تیزی سے آئے ۔ جائزہ جات بتا رہے ہیں کہ صارفین عام طور پر سستی اشیاءتلاش کرتے ہیں ۔ مہنگائی یا ٹیکس کی حالت میں اپنی ضرورتوں کی تنظیم ِنو کرتے ہیں ۔ صارفین ایسے مقامات سے خریداری کو ترجیح دیتے ہیں جہاں دیگر مقامات سے ٹیکس کم ہوں۔

حکومتیں بھی ایسے علاقے قائم کراتی ہیں جہاں دیگر مقامات کے مقابلے میں ٹیکس کم لیا جاتا ہے۔ صارفین کے عمل میں تبدیلی کا باعث سماجی ، ثقافتی ، ذاتی اور نفسیاتی اسباب بنتے ہیں۔ عمر کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ معمر حضرات نوجوانوں کے مقابلے میں خریداری کے حوالے سے زیادہ سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سماجی حالات، مالداری اور ناداری بھی کم یا زیادہ خریداری کا رجحان متعین کرتی ہے۔

مطالعہ جات بتاتے ہیں کہ برطانیہ میں ٹیکس میں اضافے کے بعد قوت خرید 1.25فیصد کم ہوئی۔ تاجر حضرات بھی ویلیو ایڈڈ ٹیکس سے متاثر ہوئے ہیں اور ہونگے۔ آسائشی اشیاءفروخت کرنے والے تاجر صارفین کے یہاں خریداری کی بابت آنے والی تبدیلی سے متاثر ہوکر اپنی نئی ترجیحات متعین کرنے لگے ہیں۔ایسے تاجر کم متاثر ہونگے جن کے زیادہ تر گاہک نوجوان ہونگے۔

مارکیٹ میں آنیوالی تبدیلیوں کے جائزے صارفین اور تاجر دونوں کیلئے مفید ثابت ہونگے۔ تاجروں کو بھی مطالعہ جات پر توجہ دینی ہوگی۔ اس تناظر میں ہماری تجویز یہ ہے کہ صارفین کے اعدادو شمار جمع کرنے والے مراکز قائم کئے جائیں ۔ یہ مراکز اشیائے خدمات کے نرخ نامے جاریں کریں۔ نرخوں کی بابت استفسار کے فوائد اجاگر کریں۔ مختلف تجارتی مراکز کے مختلف نرخوں کی تفصیلات بھی دیں۔

اس قسم کے مراکز عرب دنیا میں ابھی تک ناپید ہیں۔ بعض حکومتیں اس قسم کی سہولت پیش کررہی ہیں۔ کئی ممالک ایسے ہیں جہاں تجارتی کمپنیاں یہ کام انجام دے رہی ہیں اس قسم کی سہولت سے صارفین میں آگہی اور کفایت شعاری بڑھتی ہے ۔ تاجروں کے درمیان مسابقت میں اضافہ ہوتا ہے بالآخر صارفین فائدہ اٹھاپاتے ہیں۔ وہ مناسب وقت اور جگہ کا تعین کرکے اپنے بیشتر اخراجات کی تنظیم نو کرلیتے ہیں۔