سی ڈی اے میں چار ارب روپے مالیت کے صنعتی پلاٹس کی غیر قانونی طور پر ٹرانسفر کیے جانے کا انکشاف

اتوار 21 جنوری 2018 21:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 21 جنوری2018ء) وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی ای) میں چار ارب روپے مالیت کے صنعتی پلاٹس کی غیر قانونی طور پر ٹرانسفر کیے جانے کا انکشاف ہواہے جس میں سی ڈی اے کے ممبر اسٹیٹ، ممبر پلاننگ و ڈیزائن اور متعدد پارلیمنٹیرینز ملوث ہیں۔انڈسٹری کے 38پلاٹس کنٹرولڈ قیمت پر ٹیلیفون انڈسٹریز کو سیکٹرآئی نائن میں الاٹ کیے گئے تھے قانون کے مطابق امانٹیز کے پلاٹس چونکہ کنٹرولڈ قیمت پر الاٹ کیے جاتے ہیں انڈسٹری ختم ہونے کی صورت میں یہ پلاٹس سی ڈی اے کو واپس ہو جاتے ہیں تاہم مذکورہ معاملے میں امانٹیز کے اربوں روپے کے پلاٹس چند اہم شخصیات نے خریدے اور انہیں سی ڈی اے افسران کی ملی بھگت سے اپنے نام ٹرانسفر کروالیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی ای) کے شعبہ اسٹیٹ میں اربوں روپے مالیت کے پلاٹ نمبر 138 سے 162 تک 24 پلاٹوں سمیت 38 صنعتی پلاٹس کی متنازعہ منتقلی کے معاملے پر افسران میں سخت بے چینی پائی جا رہی ہے جس سے ادارے کو 4 ارب روپے مالیت کے نقصان کا احتمال ہے۔

(جاری ہے)

100#280 سائز کے ان پلاٹوں پر عمارتیں بھی تعمیر ہیں اس ذریعے کے مطابق سی ڈ ی اے نے ٹیلیفون انڈسٹریز کو اسلا م آباد کے سیکٹر آئی نائن میں 38 پلاٹس صنعتی مقاصد کے لیے کنٹرول ریٹ پر الاٹ کیے تھے جہاں پر ٹیفلیفون انڈسٹری قائم تھی سی ڈی اے مینوئل کے مطابق چونکہ یہ پلاٹس سی ڈی اے نے کنٹرولڈ ریٹس پر ایک سرکاری ادارے کو الاٹ کیے تھے جن کا سٹیٹس امانٹیز پراپرٹی کا ہے لہٰذ ا جب بھی یہ پراپرٹی اس مقصد کے حصول سے ختم ہوگی یہ واپس سی ڈی اے کے پاس جائیں گے کوئی بھی سرکاری ادارہ امانٹیز کے پلاٹس فروخت نہیں کر سکتا یا اس کا ٹریڈ تبدیل کیے بغیر اس پر کوئی اور کاروبار نہیں کر سکتا ہے تاہم مذکورہ پلاٹس حکومت میں شامل چند اہم شخصیات نے کم ریٹس پر خرید لیے ہیں اور انہیں خلاف ضابطہ سی ڈی اے کے دو ممبران کی معاونت سے اپنے نام منتقل کروا لیا ہے اربوں روپے کے اس سکینڈل میں سی ڈی اے کا شعبہ اسٹیٹ اور بی سی ایس کے افسران بھی شامل ہیں تاہم اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اربوں روپے کی اس بدعنوانی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

ترجمان سی ڈی اے سے جب دریافت کرنے کی کوشش کی گئی تو ترجمان نے اس معاملے سے اپنی لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے معاملے پر تبصرہ کرنے سے معذرت اختیار کرلی ہے۔

متعلقہ عنوان :