سپریم کورٹ کاحمزہ شہباز کے گھر کے باہر سے رکاوٹیں فوری ہٹانے کا حکم ،اپنی گاڑی پر جا کر عملدرآمد کا جائزہ لوں گا‘ چیف جسٹس

حمزہ شہباز کون ہے ، میں نہیں جانتا، میر ے گھر کے باہر تو کوئی رکاوٹ نہیں،اگر جان کو خطرہ ہے تو یہ لوگ وہاں کیوں نہیں چلے جاتے جہاں انہیں تحفظ مل سکے ،عوام کو پریشان مت کریں‘ جسٹس میاں ثاقب نثار حمزہ شہباز کی جان کو خطرہ ہے اس لئے زگ زیگ سکیورٹی بیریئرز لگائے ، عدالت کا احکامات پر مکمل عملدرآمد نہ کرنے پر چیف سیکرٹری پر برہمی کا اظہار سپریم کورٹ کا زینب قتل کیس کی اب تک کی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار،تفتیشی اداروں کو 72گھنٹوں میں تحقیقات مکمل کرنیکی مہلت تین رکن فل بنچ نے بند کمرے میں سماعت کی ،جے آئی ٹی کے سربراہ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے ملٹی میڈیا پر بریفنگ دی 2تھانوں کی حدود میں مسلسل واقعات ہوئے،کسی نے انکوائری کیوں نہیں کی اتنے واقعات پر پولیس کیا کر رہی تھی ‘چیف جسٹس کا استفسار جو پولیس کر رہی ہے ،اس طرح تو 21کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا‘ پولیس تحقیقات کیلئے اپناروایتی طریقہ اپنائے‘ چیف جسٹس کیس کو سستی شہرت کیلئے استعمال کرنیکی اجازت نہیں دینگے،ہمیں زیادہ پتہ ہے کہ کیس کو کیسے منطقی انجام تک پہنچانا ہے‘ سول سوسائٹی کی فریق بننے کی متفرق درخواست مسترد

اتوار 21 جنوری 2018 16:20

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جنوری2018ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعلی پنجاب کے صاحبزادے و رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز کے گھر کے باہر سے رکاوٹیں فوری طور پر ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر جان کو خطرہ ہے تو یہ لوگ وہاں کیوں نہیں چلے جاتے جہاں انہیں تحفظ مل سکے لیکن عوام کو پریشان مت کریں،جبکہ سپریم کورٹ کے تین رکنی فل بنچ نے زینب قتل کیس کی اب تک کی تحقیقات اور پولیس کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے تفتیشی اداروں کو 72گھنٹوں میں تحقیقات مکمل کرنے کی ہدایت کر دی ۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے تعطیل کے روز بھی لاہور رجسٹری میں مفاد عامہ سے متعلق کیسز کی سماعت کی ۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے لاہور رجسٹری میں بیریئرز لگا کر رکاوٹیں کھڑی کرنے سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی ۔

(جاری ہے)

حکومت کی جانب سے چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ حمزہ شہباز شریف کے گھر کے قریب راستہ بند کرنے والا گیٹ ہٹا دیا گیا ہے اب صرف بیریئرز لگے ہیں ۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عدالتی حکم پر مکمل عملدرآمد نہ کرنے پر چیف سیکرٹری پنجاب کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بیریئرز کیوں نہیں ہٹائے۔ چیف سیکرٹری نے جواب دیا کہ حمزہ شہباز کی جان کو خطرہ ہے اس لئے زگ زیگ سکیورٹی بیریئرز لگائے گئے ہیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے سخت اظہارِ برہمی کرتے ہوئے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ حمزہ شہبازشریف کون ہے میں کسی حمزہ کو نہیں جانتا۔

چیف سیکرٹری نے جواب دیا کہ حمزہ شہباز وزیراعلی پنجاب کے بیٹے اور رکن قومی اسمبلی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں کسی کو نہیں جانتا، ابھی حمزہ کو طلب کرکے پوچھ لیتے ہیں کہ ان کی جان کو کیا خطرہ ہے اور اگر ان کی جان کو خطرہ ہے تو اپنی رہائش گاہ تبدیل کریں، عوام کو پریشان مت کریں۔ یہ لوگ وہاں کیوں نہیں چلے جاتے جہاں کی ان کی جانوں کو خطرہ نہ ہو، میں چیف جسٹس ہوں لیکن میری رہائش گاہ کے باہر کوئی رکاوٹ نہیں۔

چیف جسٹس نے حمزہ شہباز کے گھر کے باہر لگی رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا جس پر چیف سیکرٹری نے عدالت کو بیریئر ہٹانے کی یقین دہانی کروائی۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ وہ اپنی ذاتی گاڑی میں مذکورہ جگہ کا دورہ کریں گے اور جائزہ لیں گے کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد کیا گیا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منظور اے ملک پر مشتمل تین رکنی فل بنچ نے زینب قتل کے از خود نوٹس کیس کی بند کمرے میں سماعت کی ۔

سماعت کے دوران جے آئی ٹی کے سربراہ نے اب تک ہونے والی تحقیقات کی رپورٹ پیش کی ۔تاہم عدالت نے اب تک کی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ۔سماعت کے دوران انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان ، ڈی جی فرانزک لیبارٹری ڈاکٹر طاہر اشرف سمیت پولیس کے دیگر اعلیٰ حکام بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل احسن بھون نے عدالت کو بتایا کہ متاثرہ بچیوں کے والدین بھی عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں لہٰذا سماعت کچھ دیر کیلئے ملتوی کردی جائے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بچیوں کے والدین کے آنے کے بعد ہی سماعت کا آغاز کیا جائے گا۔ زینب سمیت زیادتی کے بعد قتل ہونے والی دیگر سات بچیوں کے والدین اور رشتہ دار بھی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ہماری بچیوں کو اغواء کے بعد زیادتی کرکے قتل کیا گیا، ہمیں ابھی تک انصاف نہیں ملا،امید ہے کہ چیف جسٹس ہمیں انصاف دیں گے۔ سماعت کے دوران تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ محمد ادریس نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے ملٹی میڈیا پر بریفنگ دی۔

انہوں نے بتایا کہ 4جنوری کو زینب کو اغوا کیا گیا، بچی شام 7بجے گھر سے قرآن مجید پڑھنے کے لئے نکلی تھی، وہ اپنی خالہ کے گھر قران پاک پڑھنے جاتی تھی جو زینب کے گھر سے 300میٹر فاصلے پر ہے، زینب کا بھائی عثمان روزانہ اسے چھوڑنے جاتا تھا لیکن جس دن واقعہ پیش آیا وہ ساتھ نہیں تھا، زینب گھر واپس نہیں پہنچی تو گھر والوں نے تلاش شروع کی، رات ساڑھے 9بجے پولیس کو 15کے ذریعے اطلاع دی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ جون 2015ء سے اب تک 8واقعات پیش آئے اور یہ واقعات تینوں تھانوں کی حدود میں پیش آئے اور ان میں ایک ہی شخص ملوث ہے، جس کا ڈی این اے ملا ہے جبکہ پہلے دو واقعات تھانہ صدر ڈویژن میں پیش آئے۔چیف جسٹس نے تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ دو تھانوں کی حدود میں اتنے واقعات ہوئے لیکن کسی نے کوئی کارروائی اور انکوائری نہیں کی۔

پولیس کیا کر رہی تھی وہ کون سا ایس ایچ او ہے جو تین سال سے تعینات ہے، سنا ہے کہ لوگوں کی شکایات کے باوجود اس کو ہٹایا نہیں گیا۔جی آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ ہم نے 800سے زیادہ مشتبہ افراد کے ڈی این اے کیے اور 8ڈی این اے ٹیسٹ میں دستخط میچ ہوگئے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ صرف ایک ہی رخ پر تفتیش کر رہے ہیں، پولیس کے پاس تفتیش کے مزید روایتی طریقے بھی ہیں۔

جو پولیس کر رہی ہے اس طرح تو 21کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا۔معصوم بچی کے ساتھ جو ظلم ہوا وہ ناقابل بیان ہے، اگر پولیس 2015ی میں ہی کیس کو سنجیدگی سے لیتی تو آٹھ بچیاں زیادتی کے بعد قتل نہ ہوتیں، ڈی این اے سے باہر نکل کر پولیس اپنے روایتی طریقہ کار کو بھی اپنائے، ہم جانتے ہیں کہ پولیس اپنا روایتی طریقہ استعمال کرے تو ملزم تک پہنچا جا سکتا ہے، زیادتی کے آٹھ مقدمات کے حالات و واقعات یکساں ہیں تو اس رخ پر بھی تفتیش کریں۔

تفتیشی اداروں کی جانب سے تفتیش مکمل کرنے اور کسی منطقی نتیجے تک پہنچنے کے لیے مہلت مانگی گئی ۔بعد ازاںسپریم کورٹ نے بند کمرے کی سماعت کا دو صفحات پر مشتمل تحریری حکم جاری کرتے ہوئے تفتیشی اداروں کو 72گھنٹے میں تفتیش مکمل کرنے کی مہلت دیدی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سول سوسائٹی کے نمائندے عبداللہ ملک کی جانب سے زینب ازخود نوٹس کیس میں فریق بننے کی درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ زینب قتل کیس کو سستی شہرت کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور ہمیں زیادہ پتہ ہے کہ اس کیس کو کیسے منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔

درخواست گزار نے استدعا کی کہ زینب قتل کیس میں سول سوسائٹی کو بھی فریق بننے کی اجازت دی جائے۔جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ عدالت عظمی کو زینب قتل کیس میں کسی سول سوسائٹی کی معاونت کی ضروت نہیں، ہمیں زیادہ بہتر پتہ ہے کہ اس کیس کو کس طرح منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ زینب قتل کیس کو سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اس کیس کے ذریعے عوامی پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔

عدالت نے سول سوسائٹی کے نمائندے کی متفرق درخواست خارج کردی۔چیف جسٹس نے میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے نجی لاء کالجز سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ قانون کی تعلیم کا ایسا معیار چاہتے ہیں کہ اچھے وکیل پیدا ہوں، نجی لا ء کالجز خلا ضرور مکمل کریں لیکن کاروبار نہ کریں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ تعلیم کا یہ معیار نہیں چلے گا، رات ایک تصویر دیکھی کہ ایک رات میں بی اے پاس کریں۔

قانونی تعلیم کا معیار بہتر کرنا چاہتے ہیں، قانون کی تعلیم کا ایسا معیار چاہتے ہیں کہ اچھے وکیل پیدا ہوں ۔چیف جسٹس نے ایک روز قبل تشکیل دی گئی کمیٹی کو چھ ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ مرکزی کمیشن اصلاحاتی رپورٹ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو فراہم کریں اور تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز لا ء کالجزکمیشن کی معاونت کریں۔

لاء کالجز سلیبس، ڈگری کی مدت 3سال یا 5سال ہو گی اس پر بھی سفارشات دی جائیں۔ دوران سماعت وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل احسن بھون نے بتایا کہ چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی ہماری منظوری کے بغیر الحاق نہ کرے، اس پر پرنسپل یونیورسٹی لاء کالج نے کہا کہ کمیٹی میں پنجاب یونیورسٹی کے ٹیچر کو بھی شامل کر لیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سینئر وکلا لاء کالجز کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں ، جو خوش آئند ہے ،سینئر وکلاکی دلچسپی سے لگتا ہے جلد بہتر ی آئے گی۔کیس کی مزید سماعت 6مارچ تک ملتوی کر دی گئی ۔