زینب قتل کیس :سپریم کورٹ کا پولیس کو72گھنٹوں میں ملزمان گرفتار کرنے کا حکم ‘چیف جسٹس ثاقب نثار کا تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار

Mian Nadeem میاں محمد ندیم اتوار 21 جنوری 2018 14:40

زینب قتل کیس :سپریم کورٹ کا پولیس کو72گھنٹوں میں ملزمان گرفتار کرنے ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 جنوری۔2018ء) سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں زینب قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ محمد ادریس نے عدالت میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی، تاہم عدالت نے کیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے لاہور رجسٹری میں از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران زینب کے چچا اور ریپ کے بعد قتل کیے گئے دیگر بچوں اور بچیوں کے والدین بھی پیش ہوئے۔سماعت کے دوران تحقیقاتی ٹیم نے عدالت بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ واقعہ 4 جنوری کو پیش آیا جب زینب شام 7 بجے گھر سے قرآن پڑھنے کے لیے نکلی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ زینب اپنی خالہ کے گھر قرآن پڑھنے جاتی تھی، جو 300 میٹر کی دوری پر ہے کمیٹی نے بتایا کہ زینب کا بھائی عثمان اسکے ساتھ جاتا تھا لیکن جس دن واقعہ پیش آیا وہ ساتھ نہیں تھا۔

(جاری ہے)

تحقیقاتی ٹیم نے بتایا کہ جب زینب گھر واپس نہیں پہنچی تو اسکے گھر والوں نے تلاش شروع کردی اور 9 بج کر 30 منٹ پر پولیس کو 15 کے ذریعے اطلاع دی گئی۔ جون 2015 سے اب تک 8 واقعات پیش آئے اور یہ واقعات تینوں تھانوں کی حدود میں پیش آئے اور ان میں ایک ہی شخص ملوث ہے، جس کا ڈی این اے ملا ہے جبکہ پہلے دو واقعات تھانہ صدر ڈویژن میں پیش آئے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دو تھانوں کی حدود میں اتنے واقعات ہوئے پولیس کیا کر رہی تھی؟ وہ کون سا ایس ایچ او ہے جو تین سال سے تعینات ہے سنا ہے کہ لوگوں کی شکایات کے باوجود اس کو ہٹایا نہیں گیا۔

جے آئی ٹی کے سربراہ نے بتایا کہ ہم نے 800 کے قریب مشتبہ افراد کے ڈی این اے کیے، جس میں سے 8 ڈی این اے ٹیسٹ میچ ہوئے ہیں۔جس پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف ایک ہی رخ پر تفتیش کر رہے ہیں، پولیس کے پاس تفتیش کے مزید روایتی طریقے بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو پولیس کر رہی ہے اس طرح تو 21 کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا۔ سماعت کے دوران جسٹس منظور احمد ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر بھی تفتیش کرے، ہم جانتے ہیں کہ پولیس اپنا روایتی طریقہ استعمال کرے تو ملزم تک پہنچا جاسکتا ہے۔

از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ججز نے ریمارکس دیئے کہ معصوم بچی کے ساتھ ظلم ہوا ہے اگر پولیس 2015 میں اتنی سنجیدہ ہوتی تو آج 8 بچیاں زیادتی کے بعد قتل نہ ہوتیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ زیادتی کے 8 مقدمات کے حالات و واقعات یکساں ہیں تو اس رخ پر بھی تفتیش کی جائے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے زینب کے لواحقین سے استفسار کیا کہ آپ کو اگر کسی قسم کی شکایات ہیں تو بتائیں؟جس پر لواحقین نے عدالت میں بیان دیا کہ جے آئی ٹی تسلی بخش کام کررہی ہے، ہم دعا گو ہیں کہ یہ جلد کامیاب ہوجائیں۔

بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت کے لیے جی آئی ٹی اور دیگر فریقین کو چیمبر میں طلب کرلیا‘چیمبر میں سماعت ختم ہونے کے بعد جاری کردہ عدالتی آرڈر کے مطابق ڈاکٹر اشرف طاہر نے عدالت سے درخواست کی کہ حتمی نتیجے میں پرپہنچنے کے لیے انھیں مزید وقت درکار ہے جس پر عدالت نے اپنے تحریری حکم میں لکھا کہ جو کرنا ہے 72 گھنٹوں میں کریں۔دوسری جانب سپریم کورٹ میں غیر معیاری لاءکالجز کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت بھی آج ہوگی جس میں چیف جسٹس نے وائس چانسلرز سے لاءکالجز سے متعلق رپورٹ طلب کر رکھی ہے۔

لاہور میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور ہسپتالوں کا فضلہ ٹھکا نے نہ لگانے کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت بھی آج ہی ہوگی ،چیف جسٹس نے سیکرٹری ماحولیات اور سیکرٹری صحت کو تحریری رپورٹس سمیت طلب کررکھا ہے۔

متعلقہ عنوان :