زینب قتل کیس از خود نوٹس کی سماعت :

سپریم کورٹ کا جے آئی کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار پولیس کی تفتیش سے لگتا ہی21 کروڑ عوام کا ڈی این اے ٹیسٹ کرنا پڑے گا،چیف جسٹس وہ کون سا ایس ایچ او ہے جو تین سال سے تعینات ہے، سنا ہے لوگوں کی شکایات کے باوجود اس کو ہٹایا نہیں گیا، اتنے واقعات ہوگئے پولیس کیا کر رہی تھی، دو تھانوں کی حدود میں مسلسل واقعات ہوئے لیکن کسی نے کوئی کارروائی اور انکوائری نہیں کی،ریمارکس زینب بچی کی ساتھ ظلم ہوا ہے جو ناقابل بیان ہے،پولیس روایتی طریقہ بھی اپنائے جس سے ملزمان پکڑے جائیں گے ،2015 میں کیس کو سنجیدہ لیا جاتا تو آج8 بچیاں زیادتی کا نشانہ نہ بنتیں،عدالت زینب کا بھائی عثمان روزانہ اسے چھوڑنے جاتا تھا لیکن جس دن واقعہ پیش آیا وہ ساتھ نہیں تھا، رات ساڑھے 9 بجے پولیس کو 15 کے ذریعے اطلاع دی گئی، 800 سے زیادہ مشتبہ افراد کے ڈی این اے کیے اور 8 ڈی این اے ٹیسٹس میں دستخط میچ ہوگئے ہیں،جے آئی ٹی کی عدالت کو بریفنگ

اتوار 21 جنوری 2018 14:31

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 جنوری2018ء) قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی زینب کے کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی گئی۔سپریم کورٹ نے قتل کیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا اور ججز نے ریمارکس دیئے کہ معصوم بچی کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے وہ ناقابل بیان ہے،پولیس جس طرح تفتیش کررہی ہے اس طرح تو21 کروڑ عوام کا ڈی این اے ٹیسٹ کرنا پڑے گا۔

پولیس اپنا روایتی طریقہ بھی اپنائے جس سے ملزم پکڑے جائیں گے ، اگر پولیس 2015 میں ہی کیس کو سنجیدگی سے لیتی تو آج 8 بچیاں زیادتی کے بعد قتل نہ ہوتیں،سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی بچی زینب پر لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کی ۔

(جاری ہے)

تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ محمد ادریس، ڈی جی فرانزک لیبارٹری ڈاکٹر طاہر اشرف عدالت میں پیش ہوئے جبکہ زینب سمیت زیادتی کے بعد قتل ہونے والی 8 بچیوں کے والدین اور رشتے دار بھی کیس کی سماعت کے لیے پیش ہوئے۔

سربراہ جے آئی ٹی محمد ادریس نے جے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جون 2015 سے قصور میں اپنی نوعیت کا یہ آٹھواں واقعہ ہے، ان تمام واقعات میں ایک ہی شخص ملوث ہے جس کا ڈی این اے ملا ہے، یہ واقعات 3 تھانوں کی حدود میں پیش آئے اور پہلے دو واقعات تھانہ صدر ڈویژن میں پیش آئے۔چیف جسٹس نے زینب قتل کیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ وہ کون سا ایس ایچ او ہے جو تین سال سے تعینات ہے، سنا ہے لوگوں کی شکایات کے باوجود اس کو ہٹایا نہیں گیا، اتنے واقعات ہوگئے پولیس کیا کر رہی تھی، دو تھانوں کی حدود میں مسلسل واقعات ہوئے لیکن کسی نے کوئی کارروائی اور انکوائری نہیں کی۔

جی آئی ٹی سربراہ اور آر پی او ملتان محمد ادریس نے عدالت کو اب تک کی تفتیش سے آگاہ کرتے ہوئے ملٹی میڈیا پر بریفنگ دی۔ محمد ادریس نے بتایا کہ 4 جنوری کو زینب کو اغوا کیا گیا، بچی شام 7 بجے گھر سے قرآن مجید پڑھنے کیلئے نکلی، وہ اپنی خالہ کے گھر قران پاک پڑھنے جاتی تھی، خالہ کا گھر زینب کے گھر سے 300 میٹر فاصلے پر ہے، زینب کا بھائی عثمان روزانہ اسے چھوڑنے جاتا تھا لیکن جس دن واقعہ پیش آیا وہ ساتھ نہیں تھا، زینب گھر واپس نہیں پہنچی تو گھر والوں نے تلاش شروع کی، رات ساڑھے 9 بجے پولیس کو 15 کے ذریعے اطلاع دی گئی، ہم نے 800 سے زیادہ مشتبہ افراد کے ڈی این اے کیے اور 8 ڈی این اے ٹیسٹس میں دستخط میچ ہوگئے ہیں۔

سپریم کورٹ کے ججز نے ریمارکس میں کہا کہ آپ صرف ایک ہی رخ پر تفتیش کر رہے ہیں، پولیس کے پاس تفتیش کے مزید روایتی طریقے بھی ہیں، پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر بھی تفتیش کرے، جو طریقہ آپ استعمال کر رہے ہیں اس طرح تو 21 کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا، معصوم بچی کے سات جو ظلم ہوا وہ ناقابل بیان ہے، اگر پولیس 2015 میں ہی کیس کو سنجیدگی سے لیتی تو آج 8 بچیاں زیادتی کے بعد قتل نہ ہوتیں، ڈی این اے سے باہر نکل پولیس اپنے روایتی طریقہ کار کو بھی اپنائے، ہم جانتے ہیں کہ پولیس اپنا روایتی طریقہ استعمال کرے تو ملزم تک پہنچا جا سکتا ہے، زیادتی کے 8 مقدمات کے حالات و واقعات یکساں ہیں تو اس رخ پر بھی تفتیش کریں۔

زینب قتل کیس جے آئی ٹی کے سابق سربراہ ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدا بخش بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ زینب کے والد کے اعتراض پر ابوبکر خدا بخش کو جے آئی ٹی سربراہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ابوبکر خدا بخش 2015 کے قصور ویڈیو اسکینڈل کی جے آئی ٹی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔واضح رہے کہ قصور میں چند روزقبل 8 سالہ بچی زینب کو اغوا اورزیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اسے قتل کردیا گیا تھا، بچی کی لاش کچرا کنڈی سے ملی تھی جس کے بعد ملک بھرمیں زینب کے اہل خانہ کوانصاف کی فراہمی کے لیے احتجاج کیا جارہا ہے جب کہ تحقیقات کے لیے قصور واقعے پر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔

متعلقہ عنوان :