زینب قتل کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش، چیف جسٹس کا پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار

جون 2015ء سے اب تک 8واقعات پیش آئے ،800سے زیادہ مشتبہ افراد کے ڈی این اے کیے ،8 واقعات میں ایک ہی شخص ملوث ہے پہلے دو واقعات تھانہ صدر ڈویژن میں پیش آئے‘ جے آئی ٹی کے سربراہ محمد ادریس کی عدالت میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے ملٹی میڈیا پر بریفنگ 2تھانوں کی حدود میں مسلسل واقعات ہوئے،کسی نے انکوائری کیوں نہیں کی اتنے واقعات پر پولیس کیا کر رہی تھی ‘چیف جسٹس کا استفسار جو پولیس کر رہی ہے ،اس طرح تو 21کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا‘ جسٹس میاں ثاقب نثار/پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر بھی تفتیش کرے‘ جسٹس منظور احمد ملک زینب سمیت زیادتی کے بعد قتل ہونے والی دیگر بچوں اور بچیوں کے والدین اور رشتے دار بھی عدالت میں پیش ہوئے

اتوار 21 جنوری 2018 14:00

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جنوری2018ء) سپریم کورٹ آف پاکستان میں زینب قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پیش کردی گئی، تاہم عدالت نے کیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2تھانوں کی حدود میں مسلسل واقعات ہوئے،کسی نے انکوائری کیوں نہیں کی اتنے واقعات پر پولیس کیا کر رہی تھی ۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3رکنی خصوصی بینچ نے لاہور رجسٹری میں از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی)کے سربراہ محمد ادریس، ڈی جی فرانزک لیبارٹری ڈاکٹر طاہر اشرف عدالت میں پیش ہوئے جبکہ زینب سمیت زیادتی کے بعد قتل ہونے والی دیگر بچوں اور بچیوں کے والدین اور رشتے دار بھی پیش ہوئے۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ محمد ادریس نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے ملٹی میڈیا پر بریفنگ دی۔ انہوں نے بتایا کہ 4جنوری کو زینب کو اغوا کیا گیا، بچی شام 7بجے گھر سے قرآن مجید پڑھنے کے لئے نکلی تھی، وہ اپنی خالہ کے گھر قران پاک پڑھنے جاتی تھی جو زینب کے گھر سے 300میٹر فاصلے پر ہے، زینب کا بھائی عثمان روزانہ اسے چھوڑنے جاتا تھا لیکن جس دن واقعہ پیش آیا وہ ساتھ نہیں تھا، زینب گھر واپس نہیں پہنچی تو گھر والوں نے تلاش شروع کی، رات ساڑھے 9بجے پولیس کو 15کے ذریعے اطلاع دی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ جون 2015ء سے اب تک 8واقعات پیش آئے اور یہ واقعات تینوں تھانوں کی حدود میں پیش آئے اور ان میں ایک ہی شخص ملوث ہے، جس کا ڈی این اے ملا ہے جبکہ پہلے دو واقعات تھانہ صدر ڈویژن میں پیش آئے۔جس پر چیف جسٹس نے تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ دو تھانوں کی حدود میں اتنے واقعات ہوئیلیکن کسی نے کوئی کارروائی اور انکوائری نہیں کی۔

پولیس کیا کر رہی تھی وہ کون سا ایس ایچ او ہے جو تین سال سے تعینات ہے، سنا ہے کہ لوگوں کی شکایات کے باوجود اس کو ہٹایا نہیں گیا۔جی آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ ہم نے 800سے زیادہ مشتبہ افراد کے ڈی این اے کیے اور 8ڈی این اے ٹیسٹس میں دستخط میچ ہوگئے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ صرف ایک ہی رخ پر تفتیش کر رہے ہیں، پولیس کے پاس تفتیش کے مزید روایتی طریقے بھی ہیں۔

جو پولیس کر رہی ہے ،اس طرح تو 21کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا۔سماعت کے دوران جسٹس منظور احمد ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر بھی تفتیش کرے، ہم جانتے ہیں کہ پولیس اپنا روایتی طریقہ استعمال کرے تو ملزم تک پہنچا جاسکتا ہے۔سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ معصوم بچی کے ساتھ ظلم ہوا ہے، اگر پولیس 2015ء میں اتنی سنجیدہ ہوتی تو آج 8 بچیاں زیادتی کے بعد قتل نہ ہوتیں۔زیادتی کے 8 مقدمات کے حالات و واقعات یکساں ہیں تو اس رخ پر بھی تفتیش کی جائے۔