ٹرمپ کی صدارت کا ایک سال:پورے امریکا میں مظاہرے‘حکومتی شیٹ ڈاﺅن جاری حکمران جماعت کے متعدد منتخب اراکین نے عدم اعتماد کا اظہار کردیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم اتوار 21 جنوری 2018 09:05

ٹرمپ کی صدارت کا ایک سال:پورے امریکا میں مظاہرے‘حکومتی شیٹ ڈاﺅن جاری ..
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 جنوری۔2018ء) امریکی صدر ٹرمپ کی صدارت کا ایک سال مکمل ہونے پر واشنگٹن‘نیویارک ‘شکاگو اور لاس اینجلس سمیت امریکا کے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور لاکھوں افراد ٹرمپ کے خلاف نعرے لگاتے سڑکوں پر نکل آئے۔ ٹرمپ کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ یوں تو سال بھر سے جاری ہے مگر مہنگائی‘بیروزگاری اور نسلی تعصب کے مارے کروڑوں امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کو ملک کی سلامتی ‘ جمہوریت اور آزادیوں کے لیے خطرہ قراردے رہے ہیں-مظاہرین کا کہنا ہے کہ مسخرے کو منتخب کیا ہے تو سرکس کی توقع تو رکھنی ہی ہوگی۔

امریکی صدر ٹرمپ اپنے اقتدار کی سالگرہ منا رہے ہیں مگر عوام نے اس دن کو یوم احتجاج بنا دیا ہے، واشنگٹن، نیویارک، شکاگو اور لاس اینجلس سمیت ملک گیر احتجاج کے دوران لاکھوں لوگوں خصوصاً خواتین نے امریکی صدر کے خلاف نعرے لگائے، اس دوران لوگوں نے گلابی ٹوپیاں بھی پہنی ہوئی ہیں جو ماضی میں خواتین کے ساتھ ان کی مبینہ دست درازیوں کے خلاف احتجاج کا اظہار ہے۔

(جاری ہے)

ٹرمپ کی کابینہ پر طنز کرتے ہوئے ایک شہری نے کہا کہ اس سے اچھی کیبنٹس تو میں نے دکانوں پر بکتی ہوئی دیکھی ہیں‘ کئی امریکیوں نے اسے جمہوریت کی تباہی قرار دیا۔دوسری جانب شدیدمالی بحران کی وجہ سے امریکی حکومت کا امریکی حکومت کاشٹ ڈاﺅن جاری ہے۔امریکی حکومت کے اخراجات کا بل19 جنوری تک کانگرس سے پاس ہونے کے بعد صدر ٹرمپ کے دستخط سے منظور ہونا تھا لیکن صدرٹرمپ کا ٹویٹ سامنے آنے کے بعد کہ وہ ”چپ فنڈنگ“ (غریب بچوں کی فلاح وبہبود کے لیے مختص بجٹ) کی حمایت نہیں کرتے ڈیموکریٹس اور ری پبلکن نمائندگان کی جانب یہ سوالات اٹھنے شروع ہوئے کہ کیا صدر ٹرمپ اس قانون کو اب بھی سپورٹ کرتے ہیں یا نہیں۔

ایوان نمائندگان میں کچھ ریپبلیکنز نے بھی بل کے حق میں ووٹ نہ ڈالا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بل کی منظوری کے لیے درکار 60 ووٹ نہیں پڑ سکے اور 50-49 کے فرق سے یہ منظور نہ ہو سکا۔جس کے باعث امریکی حکومت نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔اگرچہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا امریکی حکومت ماضی میں بھی کئی بار اسی کے باعث کام کرنا بند کر چکی ہے مگر صدر ٹرمپ کے لیے یہ صورتحال غیریقینی ہے کیونکہ روزگار فراہم کرنے اور امریکا کو دوبارہ عظیم تربنانے کے ان کے انتخابی نعروں میں سے ابھی کسی پر عمل درآمد نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے لوگوں میں غم وغصہ بڑھتا جارہا ہے۔

2013 میں صدر براک اباما کے دور حکومت میں16 دنوں کے لیے حکومت شیٹ ڈاﺅن ہوگئی تھی لیکن صدراوباما نے صورتحال کو قابو میں کرلیا تھا اور ان کی جماعت ڈیموکریٹس کے اراکین ان کی حمایت میں کھڑے رہے تھے ۔حکومتی شیٹ ڈاﺅن میں قومی یادگاریں اور پارک بند کر دیے گئے تھے اور لاکھوں حکومتی ملازمین کو بغیر تنخواہ جبری رخصت پر بھجوا دیا گیا۔ مگر موجودہ شیٹ ڈاﺅ ن اس لیے منفرد ہے امریکی کانگرس میں ری پبلکن پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہے جبکہ وائٹ ہاﺅس بھی ری پبلیکن کے کنٹرول میں ہے۔

17جنوری کو ری پبلیکن پارٹی کی حکمت عملی تھی کہ وہ کچھ اچھی اصلاحات شامل کروا کر ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹ اپوزیشن سے عارضی فنڈنگ منظور کروا لیں۔صدر ٹرمپ کے بلاوجہ کے ٹوئٹرپغام نے اپنی ہی جماعت ری پبلکن کو مشکل میں ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے ایک بار پھر ایوان نمائندگان میں ری پبلیکن کے اندر موجود اختلافات سامنے آئے ہیں جب پارٹی کے متعدد منتخب اراکین نے بل کے حق میں ووٹ نہیں دیا ۔

حکومت شیٹ ڈاﺅن میں بہت سے حکومتی ادارے بند ہو جائیں گے اور سٹاف کو جبری رخصت پر بھیج دیا جائے گا۔ البتہ قومی سلامتی اور ائیر ٹریفک کنٹرول جیسی ایمرجنسی سروسز چلتی رہیں گی۔ امریکہ کے ڈیفنس سیکرٹری جیمز میٹس کا کہنا ہے کہ ان کے محکمے کے 50 فیصد لوگ کام پر نہیں جائیں گے اور کچھ مرمتی، تربیتی اور انٹیلیجنس آپریشنز کو فی الحال بند کرنا پڑے گا۔اسی طرح نیشنل پارکس اور قومی یادگاریں بھی بند کر دی جائیں گی - ووٹنگ سے پہلے ٹرمپ انتظامیہ کے کوشش تھی کہ کم از کم قومی پارکوں کو بند نہ کرنا پڑے اور بل پاس نہ ہونے کی صورت میں کوئی متبادل انتظامی بندوبست کیا جا سکے۔حکومت بند ہونے سے ویزا اور پاسپورٹ سروسز میں بھی تاخیر ہو سکتی ہے۔

متعلقہ عنوان :