اس ملک میں صرف آئین اور قانون کی حکمرانی ہو گی، جسٹس ثاقب نثار

ہم نے عہد کیا ہے جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دیں گے، میرے ساتھی ججز کا اپنے آپ اور قوم سے وعدہ ہے جس دن اس فعل کردار ، وعدے سے منحرف ہو گئے تو یہاں موجود بزرگ وکلاء کا ہاتھ اور میرا گریبان ہو گا، چیف جسٹس آف پاکستان ملک میں بہت سے مسائل ہیں لیکن ہم مایوس نہیں، ہمیں چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے ، ان مسائل کو حل کریں گے،عدلیہ پر تنقید ہوتی رہتی ہے لیکن بردباری کا مظاہرہ کررہے ہیں سپریم کورٹ میں تمام جید ججز موجود ہیں اس بنچ میں سب سے کم علم جج میں ہوں بار اور بنچ کسی گاڑی کے دو مصنوعی پہیے نہیں ، ایک جسم کے دو حصے ہیں،اگر ایک حصہ مفلوج ہوجائے تو پوراجسم مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے،یہ تصور نہیں ہونا چائیے کہ جسم کے ایک حصے کو کاٹا جائے، چھوٹی موٹی تلخی ہو جاتی ہے ،ایک دوسرے کی تذلیل کا سوچنا نہیں چائیے، وکلاء کی تکریم اور عزت میرے لئے قابل فخر ہے، الحمراء ہال میں ہائی کورٹ بار کے زیر اہتمام بار اور بنچ کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں وکلاء سے خطاب

ہفتہ 20 جنوری 2018 20:28

اس ملک میں صرف آئین اور قانون کی حکمرانی ہو گی، جسٹس ثاقب نثار
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 جنوری2018ء) چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اس ملک میں صرف آئین اور قانون کی حکمرانی ہو گی، ہم نے عہد کیا ہے کہ جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دیں گے، میرے ساتھی ججز کا اپنے آپ اور قوم سے وعدہ ہے جس دن اس فعل کردار اور وعدے سے منحرف ہو گئے تو یہاں موجود بزرگ وکلاء کا ہاتھ اور میرا گریبان ہو گا۔

ملک میں بہت سے مسائل ہیں لیکن ہم مایوس نہیں، ہمیں چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے اور ان مسائل کو حل کریں گے،عدلیہ پر تنقید ہوتی رہتی ہے لیکن بردباری کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار الحمراء ہال میں ہائی کورٹ بار کے زیر اہتمام بار اور بنچ کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا، فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ جسٹس آصف سعید کھوسہ سمیت دیگر ججز کے بغیر نامکمل ہے ۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ میں تمام جید ججز موجود ہیں اس بنچ میں سب سے کم علم جج میں ہوں۔ سپریم کورٹ ججز میں خامی ڈھونڈتا ہوں تو ناکامی ہوتی ہے۔ کپتان کا انحصار ٹیم پر ہوتا ہے، آپ کو سپریم کورٹ کی آزادی پر فخر ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی کچھ بھی کہے فرق نہیں پڑتا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے لیے بنچ بنا دیا ہے ، انہوں نے کہا کہ اب اس ملک میں صرف قانون کی حکمرانی ہو گی۔

ہم اس ملک میں جمہوریت کو پامال ہونے نہیں دیں گے ۔ ہم اپنی قوم سے وعدہ کرتے ہیں جمہوریت کو بچائیں گے ۔ اگر ہم وعدے سے پھر گئے تو آپ کا ہاتھ ہمارا گریبان ہو گا ۔ہمیں لوگوں کے بیانات سے فرق نہیں پڑتا۔ وکالت کا پیشہ کسی ڈاکٹر سے کم نہیں ۔یہ لوگ قابل ستائش ہیں،بار اور بنچ کسی گاڑی کے دو مصنوعی پہیے نہیں بلکہ ایک جسم کے دو حصے ہیں،اگر ایک حصہ مفلوج ہوجائے تو پوراجسم مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے،یہ تصور نہیں ہونا چائیے کہ جسم کے ایک حصے کو کاٹا جائے ۔

چھوٹی موٹی تلخی ہو جاتی ہے ،ایک دوسرے کی تذلیل کا سوچنا نہیں چائیے، وکلاء کی تکریم اور عزت میرے لئے قابل فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی سوچتا ہے کہ وہ بہت بڑا ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے یہ تو امتحان ہے جس کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، انصاف کرنا ہمارا فرض نہیں بلکہ ہماری ذمہ داری ہے،کسی جج کو اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں،جج کو قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہوں گے اگر نہیں کر سکتے تو یہ شعبہ چھوڑ دیں،اگر وقت پر فیصلے نہیں کر سکتے تو چلے جائیں، میں اپنے گھر والوں کو کہہ چکا ہوں کہ ایک سال آپ کا نہیں ہوں،مظلوم لوگوں کی دادرسی آپ نے نہیں کرنی تو کون کریگا، مجھے ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران بہت شرم محسوس کہ خوشحال بی بی کو ایک بینک 433 روپے ماہانہ پنشن دے رہا ہے۔

عدلیہ کا کام فتنہ ختم کرنا ہے ، شہریوں کو سب سے زیادہ تحفظ عدلیہ ہی دیتی ہے۔ ہم اکٹھے ہیں ہم میں کوئی اختلاف نہیں ،ہمیں جو چیلنجز ہیں اس پر گھبرانا نہیں بلکہ ان کا مقابلہ کرناہوگا، انہوں نے مزید کہا کہ ایک سال میں دیانت داری اور محنت سے کام کر لیں آپ کو محنت کا چسکا پڑ جائے گا، ان قوموں نے ترقی کی جن کو تعلیم،کوالٹی لیڈر شپ اور مضبوط عدالتی نظام ملا۔

بار ججز کو بیچنا چھوڑ دے۔ انہوں نے لاہور بار کے صدر سمیت تمام بارز کے صدور کو ہدایت کی کہ وہ کم سے کم مقدمات میں پیش ہوں اور کسی مقدمے میں وکالت نامے پر اپنا وکالت نامہ نہ دیں۔ میں خود اس کی مانیٹرنگ کروں گا اور ججز سے رپورٹ وصول کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء توڑ پھوڑ ،گھیرائو جلائو ختم کریں اور لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کیلئے ہر اول دستے کا کردار ادا کریں۔

پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ وکلاء ہیں میں ان کا کمانڈر ہوں اور ہم نے لوگوں نے داد رسی کرنی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے جج عمر عطا بندیال کی جانب سے بھجوائی گئی نظم ’’ خدا کرے میری ارض پاک پراترے وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو‘‘ پڑھی۔ خطاب کے دوران وکلاء نے ’’چیف تیرے جانثار، بے شمار ، بے شمار‘‘ کے نعرے لگائے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینئر ترین جج سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ کہا کہ وکلاء اور جج کا کام عوام کی خدمت کرنا ہے اور انہیں انصاف فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

موسم گرما کی تعطیلات کے بعد زیر التواء فوجداری اپیلیں نمٹا دی جائیں گی۔ اس وقت ملک بھر میں 300 اپیلیں زیر التواء ہیں۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین احسن بھون نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاہ زیب قتل کیس پر ازخود نوٹس لینے پر مشکور ہوں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے فیصلے میڈیا کی ہائپ پر نہیں قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔ وقت کے حکمران اسی وقت عدلیہ سے خوش ہوتے ہیں جب ان کے حق میں فیصلے ہوتے ہیں۔

جب ان کے خلاف فیصلے آتے ہیں تو عدلیہ سے ناخوش ہوتے ہیں ۔ جب ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں تو عدلیہ پر لازم ہوجاتا ہے عوام کی دادرسی کرنا ۔نو منتخب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بار سے مشاورت کے عمل کو بروئے کار لائیں گے ۔ بار اور بنچ کی مشاورت سے نوجوان وکلاء کی تربیت کو یقینی بنایا جائے ۔ قانون کی تعلیم کو معیاری بنانے کے لیے چیف جسٹس نے اداروں کو جھنجھوڑنا شروع کر دیا ہے جو کہ قابل ستائش ہے۔