قرضو ں میں بے محابہ اضافہ باعث تشویش ،بجٹ خسارہ ،تجارتی خسارے کو پورا کرنے کیلئے قرض لینے کی خطرناک روش کو ترک کیا جائے‘ جماعت اسلامی

بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس نظام میں بنیادی اصلاحات کی جا ئیں، ٹیکس نیٹ کو وسیع ،چھ لاکھ سے زائد سالانہ ہر قسم کی صافی آمدنی کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے ‘ مجلس شوریٰ کی ملکی معاشی صورتحال بارے قرار داد

ہفتہ 20 جنوری 2018 18:46

قرضو ں میں بے محابہ اضافہ باعث تشویش ،بجٹ خسارہ ،تجارتی خسارے کو پورا ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جنوری2018ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کی صدارت میں ہونے والے جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری نے اپنے حالیہ اجلاس میں ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں منظور کی گئی قرار داد میں حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امداد بند کرنے کی دھمکیوں ،پچھلے چند ہفتوں میں پاکستانی روپے کی قدر میں غیر معمولی کمی ،بڑھتا ہوا بجٹ خسا رہ اور بین الاقوامی تجارت میں روزافزوں خسا رہ اور بڑھتے ہوئے مجموعی قرضوں پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے بے محابہ قرضے لیے ۔

دسمبر 2017تک یہ مجموعی قرض 24کھرب روپے کے قریب تھا۔ حال ہی میں پاکستان نے 2.5بلین ڈالر کے سکوک اور یورو بانڈز بین الا قوامی منڈی میں فروخت کیے ہیں اور آئندہ چند ہفتوں میں پھر بین الا قوامی مارکیٹ میں اپنے بانڈز فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔

(جاری ہے)

قرضو ں میں یہ بے محابہ اضافہ باعث تشویش ہے اور آنے والے دنوں میں معیشت کے لیے شدید خطرے کا باعث بن سکتا ہے ۔

قرار داد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے قرض لینے کی خطرناک روش کو ترک کیا جائے۔تشویش کی بات تو یہ ہے کہ قرض اتارنے کے لیے بھی قرض لیے جاتے ہیں۔بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے لازم ہے کہ ٹیکس نظام میں بنیادی اصلاحات کی جا ئیں ۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے اور چھ لاکھ سے زائد سالانہ ہر قسم کی صافی آمدنی کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے ۔

ایک طرف ٹیکسز کا ریٹ کم کیا جائے اور دوسری طرف زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ ٹیکسیشن پالیسی کا بنیادی مقصد صاحب ثروت لوگوں سے ٹیکس وصول کر کے معاشی لحا ظ سے کم نصیب لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا ہو۔ اس کے لیے لازم ہے کہ زیادہ انحصار بلا واسطہ ٹیکسز کے اوپر کیا جائے اور بلا واسطہ ٹیکسز کو ود ہولڈنگ ٹیکس کے ذریعہ جمع کرنے کی موجودہ غلط روش کو ترک کیا ۔

بجلی اور گیس کے نرخوں کو کم کر کے کاروباری لاگت کو کم کیا جائے تاکہ ہماری اشیاء بین الا قوامی منڈی میں دوسرے ممالک کی اشیاء کے مقابلے میں زیادہ مہنگی نہ ہوں ۔ اسی طرح سے برآمدات کو بڑھانے کے لیے بین الاقوامی منڈیوں میں اشیاء کے معیار اور برانڈ ز کو بھی اہمیت دی جائے ۔زرعی پیداوار میں قیمت لاگت کم کر کے اور کوالٹی کو بہتر کر کے کثیر مقدار میں زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے ۔

قرار داد میں کہاگیاہے کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرے اور دوسری طرف تمام اہم تقرر یاں خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں اور احتساب کے عمل کو صاف اور شفاف بنایا جائے۔بیرون ملک سے قرض لینے کے لیے موٹروے اور ا ئیر پورٹ جیسے حساس قومی اثاثوں کو گروی نہ رکھاجائے ۔نقصان میں چلنے والی کارپوریشنز جیسے کہ پی آئی اے یا بند پڑے ہوئے پاکستان سٹیل مل جیسے اثاثوں کو دیانت داری کے ساتھ بحال کیا جائے اور ان کو اونے پونے داموں فروخت نہ کیا جائے ۔

جن ممالک کے ساتھ بھی ہم نے فری ٹریڈ کے معاہدے کیے ہوئے ہیں ان میں پاکستان کو تجارتی خسارہ پہنچانے والے تمام معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے اور ہم ہر حال میں کسی کی خاطر بھی اپنے قو می مفاد پر سمجھوتہ نہ کریں۔غیر ضروری درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جائے اور برآمدات کو بڑھانے کو ایک اہم قومی ایجنڈا کے طور پر لیا جائے ۔برآمد کنند گان کے جائز ریفنڈ روکنا مبنی بر انصاف قدم نہیں ، اس لیے اسے فورا ترک کیا جائے ۔

آنے والے دنوں میں اندرون ملک پانی کی کمی کا شدید خدشہ ہے اس لیے فوری طور پر ایک طرف پانی کی سٹوریج بڑھانے کے لیے ڈیم بنائے جائیں اور دوسری طرف بھارت کو آبی جارحیت سے مضبوط قومی موقف کے ذریعے سے روکا جائے ۔ زراعت میں جدت پیدا کی جائے تاکہ ملکی ضروریات پوری کر کے وافر مقدار میں بین الا قوامی معیار کے مطابق اضا فی پیداوار کو برآمد کیا جا سکے ۔

متعلقہ عنوان :