جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دیں گے‘ہمیں تعلیم، ایماندارقیادت اور مضبوط عدالتی نظام کی ضرورت ہے‘چیف جسٹس ثاقب نثار

نئی نسل ہماری طرف دیکھ رہی ہے کہ ہم کیا کرکے جاتے ہیں‘ کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم مصلحتوں کی بنیاد پر بھی نہیں کہہ سکتے‘ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی رہے گی‘ ہم نے مزہ نہیں لینا، قانون کے مطابق فیصلے کرکے لوگوں کے حق ادا کرنا ہیں، مظلوم کی داد رسی کرنا ہے، یہ لگن سے کرنا پڑے گا، اگر یہ چیزیں نہیں ہیں تو چھوڑ دو کوئی اور کام کرلو‘عدلیہ واقعتا ایک واچ ڈوگ ہے، شہری کو اس کا حق دلانے، مجبوری سے نجات دلانے کے لیے جو ادارہ کام کررہا ہے وہ عدلیہ ہے اور اس میں قابل احترام لوگ ہیں‘، ہم قوم کے مقروض اور دین دار ہیں، انصاف کرنا ہمارا کسی پر احسان نہیں، یہ فرائض میں شامل ہے اور فرائض اس وقت پورے کریں گے جب قانون کے مطابق دیانت داری سے انصاف کرے‘ لوگ بہت مظلوم ہیں، بڑا ظلم ہورہا ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پنشن کے لیے کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے، ملک میں بہت مسائل ہیں لیکن ہمیں ناامید نہیں ہونا اور نہ ہونے دینا ہے،قوموں کی زندگی میں چیلنجز آتے ہیں، قومیں کھڑی ہوجاتی ہیں، سپاہی کو چیلنج آتا ہے تو وہ مورچا بند ہوجاتا ہے‘ سپریم کورٹ ایک آزاد ادارہ ہے اور لوگوں کے کہنے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا‘عدلیہ مکمل آزاد ہے، آپ کو اس پر فخرہونا چاہیے، ٹیم کا کپتان تو ساری ٹیم کا محتاج ہوتاہے، بنچ کے تمام لوگ دیانتداری اور قابلیت کا بہترین نمونہ ہیں اور آصف سعید کھوسہ تو میرے بنچ کا اہم حصہ ہیں‘ اعتراف کرتاہوں کہ بنچ میں سب سے کم قابلیت والا میں خود ہوں‘ ہفتے کے روز لاہور کے الحمراء ہال میں لاہور ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب

ہفتہ 20 جنوری 2018 17:55

جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دیں گے‘ہمیں تعلیم، ایماندارقیادت اور مضبوط ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 20 جنوری2018ء) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہمیں تعلیم، ایماندارقیادت اور مضبوط عدالتی نظام کی ضرورت ہے، نئی نسل ہماری طرف دیکھ رہی ہے کہ ہم کیا کرکے جاتے ہیں‘ کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم مصلحتوں کی بنیاد پر بھی نہیں کہہ سکتے‘ ہم جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دیں گے اور ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی رہے گی‘ ہم نے مزہ نہیں لینا، قانون کے مطابق فیصلے کرکے لوگوں کے حق ادا کرنا ہیں، مظلوم کی داد رسی کرنا ہے، یہ لگن سے کرنا پڑے گا، اگر یہ چیزیں نہیں ہیں تو چھوڑ دو کوئی اور کام کرلو‘عدلیہ واقعتا ایک واچ ڈوگ ہے، شہری کو اس کا حق دلانے، مجبوری سے نجات دلانے کے لیے جو ادارہ کام کررہا ہے وہ عدلیہ ہے اور اس میں قابل احترام لوگ ہیں‘، ہم قوم کے مقروض اور دین دار ہیں، انصاف کرنا ہمارا کسی پر احسان نہیں، یہ فرائض میں شامل ہے اور فرائض اس وقت پورے کریں گے جب قانون کے مطابق دیانت داری سے انصاف کرے‘ میرے بچے بیوی گواہ ہیں، میں نے ان سے کہا ہے کہ میں ایک سال کے لیے آپ کا نہیں ہوں، میری زندگی کا حاصل ایک سال ہے، شاید کوئی ایک لمحہ ایسا تھا جب مجھ میں یہ تبدیلی اللہ نے پیدا کی‘ لوگ بہت مظلوم ہیں، بڑا ظلم ہورہا ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پنشن کے لیے کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے، ملک میں بہت مسائل ہیں لیکن ہمیں ناامید نہیں ہونا اور نہ ہونے دینا ہے،قوموں کی زندگی میں چیلنجز آتے ہیں، قومیں کھڑی ہوجاتی ہیں، سپاہی کو چیلنج آتا ہے تو وہ مورچا بند ہوجاتا ہے‘ سپریم کورٹ ایک آزاد ادارہ ہے اور لوگوں کے کہنے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا‘عدلیہ مکمل آزاد ہے، آپ کو اس پر فخرہونا چاہیے، ٹیم کا کپتان تو ساری ٹیم کا محتاج ہوتاہے، بنچ کے تمام لوگ دیانتداری اور قابلیت کا بہترین نمونہ ہیں اور آصف سعید کھوسہ تو میرے بنچ کا اہم حصہ ہیں۔

(جاری ہے)

اعتراف کرتاہوں کہ بنچ میں سب سے کم قابلیت والا میں خود ہوں۔وہ ہفتے کے روز لاہور کے الحمراء ہال میں لاہور ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کر رہے تھے جبکہ اس موقعہ پر سپر یم کورٹ اور ہائیکورٹ کے معزز جج صاحبان اور وکلاء میں بڑی تعداد بھی شریک ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدلیہ واقعتا ایک واچ ڈوگ ہے، شہری کو اس کا حق دلانے، مجبوری سے نجات دلانے کے لیے جو ادارہ کام کررہا ہے وہ عدلیہ ہے اور اس میں قابل احترام لوگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ججز کے لیے اللہ نے کمال حیثیت پیدا کردی، انصاف کرنا اللہ کی ایک صفت ہے، اس میں رزق بھی دیا، عزت بھی دیدی، آپ اس ادارے میں بطور منصف کے کام کرکے اپنی مغفرت کا بھی ایک ذریعہ بناسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ قیامت کے روز جو سب سے پہلے پکار ہوگی وہ منصف قاضی کی ہوگی، تو منصف قاضی بنو، اگر کوئی جج بن کر خود کو اونچی نسل کا سمجھتا ہے تو وہ بہت بڑی غلطی پر ہے، یہ آپ کا امتحان ہے، اسے اپنے لیے استحقاق نہ جانیں۔

معزز چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سب پہلی ذمہ داری ججز کی ہے، جو قوم آپ کو دے رہی ہے وہ اس سے بڑھ کر ہمیں نہیں دے سکتی، ہم قوم کے مقروض اور دین دار ہیں، انصاف کرنا ہمارا کسی پر احسان نہیں، یہ فرائض میں شامل ہے اور فرائض اس وقت پورے کریں گے جب قانون کے مطابق دیانت داری سے انصاف کرے۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کسی جج کو اخیار نہیں کہ وہ اپنی من مرضی اور منشا کے مطابق فیصلہ کرے، وہ قانون کا پابند ہے اور قانون کی پاسداری کرنا اس کے فرائض میں شامل ہے، ہم نے مزہ نہیں لینا، قانون کے مطابق فیصلے کرکے لوگوں کے حق ادا کرنا ہیں، مظلوم کی داد رسی کرنا ہے، یہ لگن سے کرنا پڑے گا، اگر یہ چیزیں نہیں ہیں تو چھوڑ دو کوئی اور کام کرلو۔

انہوں نے کہا کہ اگر پانچ پانچ ماہ فیصلے نہیں لکھنے تو کوئی فائدہ نہیں چھوڑ دو، اگر میں نے اپنی ڈیوٹی پوری نہیں کرنا تو مجھے اپنے سیٹ پر رہنے کا حق نہیں، مجھے گھر چلے جاناچاہیے۔انہوں نے کہا کہ میرے بچے بیوی گواہ ہیں، میں نے ان سے کہا ہے کہ میں ایک سال کے لیے آپ کا نہیں ہوں، میری زندگی کا حاصل ایک سال ہے، شاید کوئی ایک لمحہ ایسا تھا جب مجھ میں یہ تبدیلی اللہ نے پیدا کی۔

انہوں نے کہا کہ لوگ بہت مظلوم ہیں، بڑا ظلم ہورہا ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پنشن کے لیے کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے، ملک میں بہت مسائل ہیں لیکن ہمیں ناامید نہیں ہونا اور نہ ہونے دینا ہے،قوموں کی زندگی میں چیلنجز آتے ہیں، قومیں کھڑی ہوجاتی ہیں، سپاہی کو چیلنج آتا ہے تو وہ مورچا بند ہوجاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مختلف چیلنجز ہیں جو سب کو پتا ہیں لیکن گھبرانا نہیں ان چیلنجز کا سامنا کرنا ہے،آج کی نسل ہمیں دیکھ رہی ہے کہ ہم کس طرح اپنے نظام میں تبدیلی لاسکتے ہیں ہم جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دیں گے، ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس نے اس موقع پر وکلا سے اپیل کہ وکلا تھوڑ پھوڑ اور جلا گھیرا ختم کردیںمعزز چیف جسٹس خوشگوار موڈ میں نظر آئے اور انہوں نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اکثر مجھے بھائی جان کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور کبھی کبھی آئی لویو بھی کہتے ہیںجسٹس ثاقب نثار نے جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے بھیجی گئی نظم بھی پڑھی۔

انہوں نے کہا کہ بار اوربنچ جسم کے دوحصے ہیں، باراوربنچ میں کوئی مفلوج ہوجائے تو ادارہ مفلوج ہوجاتاہے، یہ تصور نہیں ہونا چاہیے کہ جسم کا ایک حصہ دوسرے حصے کو کاٹے گا جج بننا ایک امتحان ہے، عوام کو انصاف دینا ہمارا فرض ہے، ہمیں قانون کے مطابق فیصلے کرکے مظلوم کی دادرسی کرنی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں تعلیم، ایماندارقیادت اور مضبوط عدالتی نظام کی ضرورت ہے، نئی نسل ہماری طرف دیکھ رہی ہے کہ ہم کیا کرکے جاتے ہیں۔ کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم مصلحتوں کی بنیاد پر بھی نہیں کہہ سکتے، اب ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی رہے گی، ہم جمہوریت کوپامال نہیں ہونے دیں گے۔