سپریم کورٹ نے سرکاری یونیورسٹیوں کو تاحکم ثانی کسی نئے لا ء کالج کے الحاق سے روکدیا

عدالتیں نئے کالجز کے الحاق کے کیس پر حکم امتناع نہ دیں،اس متعلق تمام مقدمات کو جلد نمٹایا جائے جس کا جو جی چاہتا ہے کر رہا ہے، ہریونیورسٹی نے اپنا نظام تعلیم بنا لیا ، اگر نقل کرکے ہی وکالت کرنا ہے تو انٹری ٹیسٹ ہی ختم کردیں‘ ریمارکس ایسے وکیل پیدا نہیں کرنے جو صبح پان کی دکان چلاتے ہوں اور بعد میں ڈگری حاصل کرلیں، وائس چانسلرز سے لاء کالجز کی صورتحال سے متعلق بیان حلفی کیساتھ رپورٹ طلب، لا ء کالجوں میں اصلاحات کے لیے سینئر قانون دان حامد خان کی سربراہی میں کمیٹی قائم ،چھ ہفتوں میں اپنی سفارشات پیش کرنیکی ہدایت آئندہ چار ہفتوں میں نجی میڈیکل کالجز کے حوالے سے اقدامات اور پالیسی کے خدوخال واضح ہونا شروع ہو جائینگے‘ چیف جسٹس پاکستان خواہش ہے اس حوالے سے قانون سازی سے قبل عوامی بحث کروائی جائے ‘نجی میڈیکل کالجز سے متعلق کیس کی سماعت چیف سیکرٹری نے 139ٹیوب ویلوں کے پانی کے نمونوں سے متعلق رپورٹ جمع کرا دی،فوڈ اتھارٹی نے بھی 24کمپنیوں سے متعلق رپورٹ جمع کرائی جب تک عدالت اجازت نہ دے یہ 24 کمپنیاں کھلنی نہیں چاہئیں‘ جسٹس میاں ثاقب نثار کی ڈی جی فوڈ اتھارٹی کو ہدایت محکمہ ماحولیات سب سے نکمہ محکمہ ہے، محکمہ ماحولیات حکومت کا خدمت گار بنا ہوا ہے، کوئی منصوبہ بنانا ہو تو محکمہ سب اچھا کی رپورٹ دیتا ہے تین مقامات لاہور کے اطراف اور تین مقامات لاہور کے اندر سے منتخب کر کے آلودگی جانچ کر آج رپورٹ پیش کرنے کا حکم

ہفتہ 20 جنوری 2018 17:37

سپریم کورٹ نے سرکاری یونیورسٹیوں کو تاحکم ثانی کسی نئے لا ء کالج کے ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جنوری2018ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے سرکاری یونیورسٹیوں کو تاحکم ثانی کسی نئے لا ء کالج کے الحاق سے روکتے ہوئے ماتحت عدالتوں کو حکم دیا کہ نئے کالجز کے الحاق کے کیس پر حکم امتناع نہ دیا جائے اور اس متعلق تمام مقدمات کو جلد نمٹایا جائے اور ریمارکس دیئے ہیں کہ جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کر رہا ہے، ہریونیورسٹی نے اپنا نظام تعلیم بنا لیا ہے، اگر نقل کرکے ہی وکالت کرنا ہے تو انٹری ٹیسٹ ہی ختم کردیں، ایسے وکیل پیدا نہیں کرنے جو صبح پان کی دکان چلاتے ہوں اوربعد میں ڈگری حاصل کرلیں۔

ہفتہ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے غیر معیاری نجی لاء کالجز سے متعلق از خوٹس نوٹس کیس کی سماعت کی ۔

(جاری ہے)

فاضل عدالت کے طلب کرنے پر ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کہاں ہیں جس پر پروفیسر ذکریا ذاکر نے کہا کہ میں حاضر ہوں ۔

چیف جسٹس نے پنجاب یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی نہ ہونے پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب کو فوری طلب کرلیا۔ سماعت کے دور ان لاء آفیسر نے بتایا کہ اس کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔چیف جسٹس نے یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کو لا ء کالجز کی صورتحال سے متعلق بیان حلفی کے ساتھ رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس میں غلطی ہوئی تو کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی ۔

عدالت نے لا ء کالجوں میں اصلاحات کیلئے سینئر قانون دان حامد خان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرتے ہوئے اسے چھ ہفتوں میں اپنی سفارشات پیش کرنے اور حامد خان کو ہدایت کی کہ آج تک ممبران کا چنائو کریں ۔چیف جسٹس نے تمام سرکاری یونیورسٹیز کو تاحکم ثانی کسی نئے کالج کے الحاق سے روکتے ہوئے ماتحت عدالتوں کو حکم دیا کہ نئے کالجز کے الحاق کے کیس پر حکم امتناع نہ دیا جائے اور حکم امتناع کے مقدمات کو جلد نمٹایا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سمجھ نہیں آتی اتنی پرائیوٹ یونیورسٹیاں کھل کیسے گئیں، جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کر رہا ہے، ہریونیورسٹی نے اپنا نظام تعلیم بنا لیا ہے، اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنے پاس ہی آئیں۔ ایک کتاب ایک بستہ کا قانون ہونا چاہیے ۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیوں نہ وکالت کے لیے انٹری ٹیسٹ ختم کردیں، اگر نقل کرکے ہی وکیل بنناہے تو ایسے سسٹم کو ہی ختم کردیں، ایسے وکیل پیدا نہیں کرنے جو صبح پان کی دکان چلاتے ہوں اوربعد میں ڈگری حاصل کرلیں۔

ادارے قائم رہنے چاہیں شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں، افسوس ہم اپنے ادارے مضبوط نہیں کر رہے، ایسے این ٹی ایس کا کیا فائدہ جہاں نقل کر کے امتحان دیا جاتا ہو۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب سے یونیورسٹیز سے الحاق کیے گئے لا ء کالجز سے متعلق رپورٹ طلب کر لی ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے پرائیویٹ میڈیکل کالجز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ آئندہ چار ہفتوں میں نجی میڈیکل کالجز کے حوالے سے اقدامات اور پالیسی کے خدوخال واضح ہونا شروع ہو جائیں گے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں نجی میڈیکل کالجوں سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے قرار دیا کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے حوالے سے قانون سازی کے لیے ڈاکٹر عاصم کی ضرورت ہو گی۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے ڈاکٹر عاصم کو بلایا تھا لیکن سننے میں آیا ہے کہ وہ باہر جا رہے ہیں ،ْڈاکٹر عاصم کے وکیل کو فوری بلائیں ورنہ ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیں گے۔

بعد ازاں ڈاکٹر عاصم کے وکیل لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہو گئے ۔ فاضل عدالت نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کو بتا دیں کہ وہ بلانے پر پیش ہوں۔چیف جسٹس نے مزید قرار دیا کہ آئندہ چار ہفتوں میں نجی میڈیکل کالجز کے حوالے سے اقدامات اور پالیسی کے خدوخال واضح ہونا شروع ہو جائیں گے۔ خواہش ہے کہ اس حوالے سے قانون سازی سے قبل عوامی بحث کروائی جائے اور رائے لی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سینئر ڈاکٹر نے انہیں بتایا ہے کہ نہیں معلوم 10 سال بعد علاج کرنے کے لیے کوئی ڈاکٹر موجود ہو گا بھی یا نہیں، ہمارے ملک میں ڈاکٹرز کی یہ صورتحال ہو گئی ہے کہ سینئر ڈاکٹر بھی پریشان ہیں۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پانی کی آلودگی پر از خود نوٹس کیس کی بھی سماعت۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے 139ٹیوب ویلوں کے پانی کے نمونوں سے متعلق رپورٹ جمع کرا دی۔

چیف سیکرٹری پنجاب کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ 5ٹیوب ویلوں کے نمونے درست نہیں آئے، دوبارہ ٹیسٹ کرا رہے ہیں، ٹیوب ویلوں کے پانی میں آرسینک کی مقدار مضر صحت نہیں ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی نے بھی 24 کمپنیوں سے متعلق رپورٹ جمع کرائی، جس میں بتایا گیا کہ مضر صحت ہونے پر 24 پانی کمپنیاں سربمہر کر دی گئی ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے حکم دیا کہ جب تک عدالت اجازت نہ دے یہ 24 کمپنیاں کھلنی نہیں چاہئیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ہسپتالوں میں فضلہ جات ٹھکانے نہ لگانے پر از خود نوٹس کی سماعت کی ۔ چیف جسٹس نے لاہور میں ماحولیاتی آلودگی بڑھنے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے چھ مقامات پر آلودگی جانچ کر آج تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی ۔ فاضل عدالت نے سیکرٹری ماحولیات پر اظہار برہمی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ ماحولیات کا حال کتنا برا ہی ، محکمہ ماحولیات سب سے نکمہ محکمہ ہے۔

کیا اورنج ٹرین کے این او سی آپ نے جاری کیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ محکمہ ماحولیات حکومت کا خدمت گار بنا ہوا ہے، جب پنجاب حکومت نے کوئی منصوبہ بنانا ہو تو محکمہ سب اچھا کی رپورٹ دیتا ہے، محکمہ ماحولیات کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی خوفناک حد تک بڑھ گئی، جلد وہ وقت آنے والا ہے جب ماسک کے بغیر کوئی چل پھر نہیں سکے گا، آپ سیکرٹری ماحولیات ہیں، کیا آپ کے پاس آلودگی چیک کرنے والا آلہ موجود ہے، یہ لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے، عوام کی صحت سے کھیلا جا رہا ہے، اگر اعداد و شمار اور رپورٹ میں ابہام ہوا تو معطل کر دیا جائے گا۔

عدالت نے سیکرٹری ماحولیات کو حکم دیا کہ تین مقامات لاہور کے اطراف اور تین مقامات لاہور کے اندر سے منتخب کر کے آلودگی جانچی جائے اور آج تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے ۔