ملک میں صرف آئین اور قانون کی حکمرانی رہے گی ،قوم سے عہد ہے جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دینگے‘ چیف جسٹس

جس دن ہم اپنے کردار یا وعدے سے پھرے میرا گریبان اور آپ کا ہاتھ ہوگا ،لوگوں کے کہنے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، عدلیہ مکمل آزاد ہے ،ْثاقب نثار کسی جج کو یہ اختیار حاصل نہیں وہ اپنی منشا کے مطابق فیصلے کرے ،انصاف کرنا کسی پر احسان نہیں ،ْبنچ اور بار ایک جسم کے دو حصوں کی مانند ہیں ووٹوںکے ذریعے منتخب ہونے والے کم سے کم کیسز میں وکالت نامے جمع کرائیں ، توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو نہیں ہونا چاہیے ،ْ جس ایک نے کسی جج کی بے تکریمی کی تو وکلاء کے ڈیڑھ لاکھ کے لشکر سے پسپا کر دیں گے‘ جسٹس میاں ثاقب نثار کا بنچ اور بار کے تعلقات کے موضوع منعقدہ سیمینار سے خطاب

ہفتہ 20 جنوری 2018 17:16

ملک میں صرف آئین اور قانون کی حکمرانی رہے گی ،قوم سے عہد ہے جمہوریت ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جنوری2018ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اس ملک میں صرف آئین اور قانون کی حکمرانی رہے گی ، ہمارا قوم سے عہد ہے کہ ہم جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دیں گے ، جس دن ہم اپنے کردار یا وعدے سے پھرے میرا گریبان اور آپ کا ہاتھ ہوگا ،لوگوں کے کہنے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، عدلیہ مکمل آزاد ہے، کسی جج کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی او رمنشا کے مطابق فیصلے کرے بلکہ قانون اور اس کی پاسداری کرنا ڈیوٹی میںشام ہے ،قوم جو دے رہی ہے اس سے بڑھ کر نہیں دے سکتی ،انصاف کرنا کسی پر احسان نہیں بلکہ یہ ہماری ڈیوٹی میں شامل ہے، قوموں کی زندگی میں چیلنجز آتے ہیں لیکن وہ قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو ان کا سامنا اور حل کرتی ہیں ،بنچ اور بار ایک جسم کے دو حصوں کی مانند ہیں اور جسم کا ایک حصہ دوسرے حصے کو کیسے کاٹ سکتا ہے ، ووٹوںکے ذریعے منتخب ہونے والے کم سے کم کیسز میں وکالت نامے جمع کرائیں ، توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو نہیں ہونا چاہیے ،جس ایک نے کسی جج کی بے تکریمی کی تو وکلاء کے ڈیڑھ لاکھ کے لشکر سے پسپا کر دیں گے۔

(جاری ہے)

وہ ہفتہ کو لاہور ہائیکورٹ بار کے زیر اہتمام الحمرا میں ’’ بنچ اور بار ‘‘ کے موضوع منعقدہ سیمینار سے خطاب کررہے تھے ۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید ، لاہور ہائیکورٹ کے نامزد چیف جسٹس یاور علی خان سمیت دیگر معزز ججز صاحبان اورتمام وکلاء تنظیموں کے عہدیداران موجودتھے ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کوئی بھی بنچ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بغیر نا مکمل ہے ،جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس شیخ عظمت سعید ،جسٹس گلزار احمد کے بغیر نا مکمل ہے ،یہ سارے ہیرے ہیں اور یہ جید نام ہیں،بے چارے کپتان کا تو سارا انحصار ٹیم پر ہوتا ہے ،آپکوبتانا چاہتا ہوں جب میں کبھی سینئر ساتھی ججز کے ساتھ مل کر بیٹھتا اور کہتا ہوں کہ آئیں ان کا تنقید ی جائزہ لیں تو تمام ججز جید اور پختگی میں میں مکمل ہیں، علمی قابلیت کسی کی کم یا زیادہ ہو سکتی ہے اگر ان میں کوئی سب سے کم علم ہے تو وہ میں خود کو قرار دیتا ہوں لیکن میں ان میں خرابی ڈھونڈتا ہوںتو اس میں ناکام رہتا ہوں۔

یہ کوئی ذاتی ستائش نہیں بلکہ ان کو پرکھ کر یہ ڈیکلریشن آپ کے سامنے رکھا ہے ،آپ کو اپنی سپریم کورٹ پر فخر ہونا چاہیے یہ ایک مضبوط عدالت ہے ۔ لوگ جو مرضی کہتے رہے ہیں ہمیں لوگوں کے کہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ کسی بھی جج کے لئے تحمل ، بردباری اور پختگی انتہائی اہم ہے ، بتائیں ہم نے آج تک کتنے توہین عدالت کے نوٹس دئیے ہیں اور لوگوں کو ذلیل کیا ہے ۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ وکالت کا شعبہ بڑا نوبل ہے اور یہ ڈا کٹر کے شعبے کی طرح ہے ، ڈاکٹر آپ کے جسم کی تکلیف کو دور کرتا ہے تو وکیل کا معاشرے کے حوالے سے اسی طرز کا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بار اور بنچ کو یہ کہنا کہ یہ ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں مصنوعی ہے ،میں تو یہ کہتا ہوں کہ بنچ او ربار ایک جسم کے دو حصے ہیں ، جس طرح دو باز و ہیں، دو ٹانگیں ہیں، دو آنکھیں ہیں اگر ایک حصہ مفلو ج ہو جائے تو پورا جسم کمزور ہو جاتا ہے ۔

اگر ایک کمزور ہو جائے تو پورا ادارہ مفلوج ہوگا ،آپ بنچ کی طاقت اور بنچ آپ کی طاقت ہے اور یہ تصور ہی نہیں ہونا چاہیے کہ ایک حصہ دوسرا حصے کو کاٹے گا یا تکلیف پہنچائے گا کبھی یہ سوچ سے گزرا ہی نہیں ہے ۔ انہوں نے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کبھی کبھی جذبات اوور پار ہو جاتے ہیںبار کی تعداد زیادہ ہے او رجج کو اکٹھے کرنے میں وقت لگتا ہے اس لئے آپ تالہ لگا دیتے ہیں لیکن کسی جج کی تذلیل کرنی ادارے کی تذلیل کرنی ہے او رکون ایسا کرے گا جس کے ساتھ ا سکا پیٹ لگا ہو ، کون اس ادارے کو مفلوج یا کمزور کرے گا ۔

کبھی آپ نے عدلیہ کے ادارے پر غور کیا ہے ،،یہ فتنہ ختم کر تا ہے اور ایسا کرنے والے لوگ واقعی جید ہوتے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ ہم نے شہریوں کو حق دلانا ہے انہیںقدغن اورمجبوری سے نجات دلانے کے لئے آپکی عدلیہ ہے ۔ عدلیہ کے لوگ قابل احترام ہیں ۔اججز کے لیے اللہ نے کمال حیثیت پیدا کردی، انصاف کرنا اللہ کی ایک صفت ہے، اس میں رزق بھی دیا، عزت بھی دیدی، آپ اس ادارے میں بطور دیانتدار منصف کے کام کرکے اپنی مغفرت کا بھی ایک ذریعہ بناسکتے ہیں۔

محشر میں جب سورج سوا نیزے یا سوا میل پر ہوگا تو سب سے پہلے پکار منصف اور قاضی کی ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی جج بن کر یہ سوچتا ہے کہ وہ اونچی نسل یا ذات میں سے ہو گیا تو وہ بہت بڑی غلطی پر ہے یہ تو امتحان ہے اور اس پر پورا اتریں اسے اپنا استحقاق مت جانیے او رکام کیجیے ، آ پ بہت سکھی ہیں ،قوم جو دے رہی ہے اس سے بڑھ کر نہیں دے سکتی ، اور ممالک کو دیکھیں وہاں ایسی مراعات دستیاب نہیں اور ہم مقروض ہیں دین دار ہیں ۔

ہمیں انصاف کرنا ہے اور یہ ہمارا کسی پر احسان نہیں ہے یہ ہماری ڈیوٹی میں شامل ہیکہ ہم اپنی ڈیوٹی پوری دیانتداری اہلیت اور قانون کے مطابق کریں ۔ انہوں نے کہا کہ کسی جج کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی او رمنشا کے مطابق فیصلے کرے بلکہ قانون اور اس کی پاسداری کرنا ڈیوٹی میںشام ہے ۔ہم نے پوری ایمانداری اور لگن سے لوگوں کی وادرسی کرنی ہے اگر ایسا نہیں ہے تو بشمول میرے ہمیں اس منصب کو چھوڑ دینا چاہیے او رہمیں جا کر کوئی او رکام کرنا چاہیے ،اگر ہم نے پانچ پانچ مہینے ججمنٹ نہیں لکھنی ، طوالت دینی ہے تو ہم ڈیوٹی پوری نہیں کر رہے تو ہمیں اس ادارے میں ٹھہرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہمیں گھر جانا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے گھر والوں کو کہہ دیا ہے کہ میں ایک سال آپ کا نہیں ہوں ۔ میری زندگی کا حاصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک لمحہ جس میں ساری تبدیلی آئی ہے وہ ایک لمحہ تھا جب تبدیلی پیدا ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں منصف بنایا اور توفیق دی اس سے بڑا احسان ہو نہیں سکتا ،اگر ہم اس ڈیوٹی کو نہیں نبھا سکتے تو ہمیں اسے چھوڑ کر چلے جانا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ ایک سرکاری ملازم جو آ پ کے ساتھ کرتا ہے جب وہ ریٹائر ہو کر چلا جاتا ہے تو آپ اس کے حق پر بیٹھ جاتے ہیں اور جب تک فائل کے نیچے کچھ رکھا نہ جائے اس کی پنشن نہیں بنتی ،مجھے پنشن کیسز سن کر شرم آتی ہے ، ایک خاتون کی 437روپی72پیسے پنشن بنی ، ہم نے مظلوم کی داد رسی کرنی ہے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ظالم معاشرہ تو قائم رہ سکتا ہے لیکن بے انصاف معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ۔

آج کے دن میر ے کہنے پر فیصلہ کریں کہ ہم نے لیا کیا ہے اور دیا کیا ہے ۔ ملک کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے لیکن میں مایوس نہیں ہوں اور نہ آپ کو ہونے دینا ہے ، ابھی کچھ نہیں ہوا ہم اکٹھے ہیں جذبہ ہے ہر مشکل کو چیلنج کے طور پر لینا ہے ۔ قوموں کی زندگی میں چیلنج آتے ہیں لیکن قوم وہی ہوتی ہے جو کھڑی ہو جاتی ہے ۔ ہمیںملٹی پل چیلنجز ہیں اور مجھے بھی اور آ پ کو بھی ان چیلنجز کے بارے میں پتہ ہے لیکن ہم نے ان کا سامنا کرنا ہے ان کو حل کرنا ہے ۔

مجھے عہدیداروں کی جانب سے کہا گیا کہ وکلاء کی ڈیڑھ لاکھ کی فوج آپکے ساتھ ہے اورجسے مفت میں اتنی بڑی فوج مل جائے اور جس کا میں سپہ سالار اس کا حوصلہ کیا ہوگا ۔ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچنا ہے ان کے لئے نظام میں بہتری لانی ہے ۔ میں آپ سب دوستوں اور قوم سے ایک سال کا تحفہ مانگ رہا ہوں ، آ پ نے دیانتداری ،اہلیت سے کام کرنا ہے اور یقین مانیے آ پ یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ نے خرابی نہیں کرنی سیدھے راستے ،تقویٰ کا راستہ اختیار کرنا ہے تو آپ کو ایسا چسکا اورلت پڑ جائے گی کی دیانتداری میں کیاموجیں ہیں ۔

اگر میں کرپشن کر کے ایک گاڑی نہیں بناتا تو اس سے ملک کے بچوں کے لئے بیس گاڑیاں آ جاتی ہیںاورقومی ایسی ہی ترقی کرتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں چار چیزیں اہم ہیں جن میں تعلیم ، لیڈر شپ اور نبی کریم ؐ جیسے لیڈر جن پر نبوت بعد میں، ایماندار ،مفادات سے بالا تر اور بے خوف و خطر حق بات کہنا ، مفافقت نہ کرنا ، حصرت عمر نے اسے اپنے اوپر لاگو کر کے مثال قائم کی اگر ہمیں ایسے لیڈر مل جائیںتو قوم کی تقدیر بدل جائے گی ، مضبوط عدالتی نظام اور قانون جس میں امیر اور غریب کی کوئی تفریق نہ ہو ، پسے ہوئے شخص کو اس کاحق دینے کا جذبہ ہو اگر یہ ہوگا تو ترقی ہو گی ۔

انہوں نے کہا کہ کچھ مصلحتیں ہیں جو ہم قومی مفادکے حوالے سے کہہ بھی نہیں سکتے لیکن میرے دوست گواہ ہیں کہ ہم نے بہت سی میٹنگز میں کہا ہے کہ اس ملک میں قانون ہوگا،صرف آئین کی حکمرانی ہو گی ،ہم جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دیں گے یہ میرا اور میرے دوستوں کا اپنے آپ سے عہد ہے اس قوم سے عہد ہے ،ہمیں قوم اس سے پیچھے نہیں پائیں گے ، جس دن ہم اپنے فعل اور کردار سے اورعدے سے پھرے تو جو بھی یہاں بزرگ ہے میں کہتا ہوں کہ میر اگریبان اور آپ کا ہاتھ ہوگا۔

انہوں نے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ججز کی عزت کرنا سیکھیں، ان کی بے تکریمی کرنا چھوڑ دیں، اگر کوئی ایک آدمی تذلیل کرے گا تو میں ڈیڑھ لاکھ کا لشکر لے کر پہنچ جائوں گا اور اسے پسپا کروں گا ، توڑ پھوڑ اور گھیرائو جلائو نہیں ہونا چاہیے ۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ جتنے بھی عہدیداران ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں انہیںکم سے کم کیسز میں وکالت نامہ جمع کرانا ہے اور میں اس کا حساب لوں گا او راس کی نگرانی کروں گا،میں آپ کو باپ کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں ، بار اور بنچ کی تکریم کے لئے آپ نے کم سے کم مقدمات لینے ہیں ،میں تمام چیف جسٹس صاحبان اور سیشن ججز سے بتدریج پوچھوں گا کہ دھونس دھاندلی سے حکم امتناعی تو نہیںلیا گیا ہے ۔