صدر مملکت ممنون حسین نے انجمن ترقی اردو کے تعمیراتی منصوبے اردو باغ کمپلیکس کا افتتاح کر دیا

قومیں اپنی زبان، تاریخ، ثقافتی ورثے ، بودوباش اور تہذیب سے پہچانی جاتی ہیں ، قوموں کی پہچان میں سب سے زیادہ اہمیت زبان کو حاصل ہے،اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے سے نوجوان طلبہ کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہو گا ، وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہر ہ کر سکیں گے ،ایوان صدر میں ذمہ داری سنبھالنے کے بعد میں نے نفاذ اردو کے سلسلے میں کئی اقدامات کیے، پاکستان میں قومی سطح کا کوئی موقع ہو یا بیرون ملک بین الاقوامی اداروں کی تقریبات اور کانفرنسیں،میں نے ہر موقع پر اردو میں ہی تقریر کی، ممنون حسین صدر مملکت کا انجمن ترقی اردو کے منصوبے اردو باغ کمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب

ہفتہ 20 جنوری 2018 15:41

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 جنوری2018ء) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ قومیں اپنی زبان، تاریخ، ثقافتی ورثے ، بودوباش اور تہذیب سے پہچانی جاتی ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ اہمیت زبان کو حاصل ہے،ایوان صدر میں ذمہ داری سنبھالنے کے بعد میں نے نفاذ اردو کے سلسلے میں کئی اقدامات کیے، سب سے پہلا کام تو میں نے یہ کیا کہ پاکستان کے اندر قومی سطح کا کوئی موقع ہو یا بیرون ملک بین الاقوامی اداروں کی تقریبات اور کانفرنسیں،میں نے ہر موقع پر اردو میں ہی تقریر کی۔

ہفتہ کوصدر مملکت ممنون حسین نے انجمن ترقی اردو کے تعمیراتی منصوبے اردو باغ کمپلیکس کا افتتاح کر دیا۔ اس موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے سے نوجوان طلبہ کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہو گا اور وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہر ہ کر سکیں گے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر میئر کراچی محمد وسیم اختر، صدر انجمن ترقی اردو ذوالقرنین حیدر جمیل اور معتمد انجمن ترقی اردو فاطمہ حسن بھی موجود تھیں۔

صدر ممنون حسین نے کہا کہ اردو باغ محض ایک عمارت یا تعمیراتی منصوبہ نہیں بلکہ ایک تحریک کا تسلسل اور اِس تحریک کے اگلے مرحلے کا آغاز ہے جس کا تعلق پاکستان کی نظریاتی شناخت اور اس کی ترقی و خوشحالی سے ہے۔انہوں نے کہا کہ قومیں اپنی زبان، تاریخ، ثقافتی ورثے ، بودوباش اور تہذیب سے پہچانی جاتی ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ اہمیت زبان کو حاصل ہے۔

میں توقع کرتا ہوں کہ اردو باغ کی تعمیر کے بعد اس تحریک کو نئی توانائی ملے گی۔ صدر ممنون نے کہا کہ اردو باغ کی تعمیر کے بعد پہلی ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ اس منصوبے کے باقی ماندہ حصوں کی تکمیل پر توجہ دی جائے۔ اس سلسلے میں کراچی کے علم دوست حلقے، صاحبانِ ثروت اور اردو سے محبت کرنے والے ضرور اپنا کردار ادا کریں۔انہوں نے کہا کہ مجھے یہ جان کر ازحد مسرّت ہوئی ہے کہ اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے سلسلے میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن میں جو علمی کام ہو ا تھا اور سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف علوم کی بے شمار کتابوں کے تراجم ہوئے تھے ، وہ سب کے سب انجمن کی لائبریری میں محفوظ ہیں یہ علمی خزانہ ہے جس سے آج بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ انجمن کے ذمہ داران اس سلسلے میں وطنِ عزیز کی مختلف جامعات ، خاص طور پر وفاقی اردو یونیورسٹی کے ساتھ مسلسل رابطہ استوار رکھیں تاکہ اس عظیم الشان علمی ذخیرے میں مزید اضافہ کیا جاسکے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ عمل علمی خزانے کی حفاظت اور اس سے استفادے کی نئی راہیں کھولنے کا ذریعہ بنے گا۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہمارے طالب علم مختلف علوم، خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں اٴْس وقت تک تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر ہی نہیں سکتے جب تک کہ اردو کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اختیار نہ کیا جائے۔

مجھے خوشی ہے کہ وطنِ عزیز کی بعض جامعات میں اب بھی اس سلسلے میں فکر مندی پائی جاتی ہے۔ میرے علم میں آیا تھا کہ شعبہ ابلاغ عامہ، جامعہ کراچی کے ایک ممتاز استاد پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ نے وسائل کی عدم موجودگی کے باوجود اپنے اساتذہ اور طلبہ سے ابلاغ عامہ کی جدید تحقیق سے متعلق بہت سی کتب کے تراجم کرا کے اردو کا دامن وسیع کیا تھا جس سے نہ صرف جامعہ کراچی بلکہ دیگر جامعات کے طلبہ اب بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

میری خواہش ہے کہ انجمن ترقی اردو اور وطن عزیز کی تمام سرکاری و نجی شعبے کی جامعات کے درمیان اس سلسلے میں تعلقات کار قائم ہونے چاہئییں تاکہ فروغ اردو کی منتشر کوششیں مربوط شکل اختیار کر سکیں۔ ہمارے ہاں سرکاری اور نجی سطح پر جدید علمی پیش رفت اور اس سلسلے میں متعارف ہونے والی اصطلاحات کے تراجم اور انھیں عام فہم بنانے کے لیے قابلِ قدر کام ہوا ہے جس کے مفید نتائج برآمد ہوئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کبھی ختم نہ ہونے والا عمل ہے۔

انجمن ترقی اردو چونکہ جامعہ عثمانیہ کے علمی ورثے کی امین ہے، لہٰذا یہ ذمہ داری بھی اسی کی ہے کہ وہ اس شعبے میں کام کرنے والے اداروں کی رہنمائی کرے تاکہ ترجمے کا کام پیچیدہ صورت اختیار کر کے ضائع ہونے کے بجائے عام فہم صورت اختیار کر کے زباں زد عام ہو جائے۔ اردو تحریک کو مضبوط اور مؤثر بنانے کا بہترین طریقہ یہی ہے۔صدر ممنون حسین نے کہا کہ انجمن کے علمی ذخیرے میں بہت سی نادر و نایاب کتابیں، ہزاروں قلمی نسخے اور مخطوطے موجود ہیں تاہم موسمی اثرات اور دیگر عوامل کی وجہ سے ایسی بیش قیمت کتابیں ضائع ہو جاتی ہیں جس کے نتیجے میں آنے والی نسلیں علم کے ایسے نایاب سرچشموں سے محروم ہو جاتی ہیں۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اس دور میں علم کے ان خزانوں کو محفوظ کرنا مشکل نہیں رہا۔ اس لیے میں چاہوں گا کہ ا نجمن کی لائبریری میں موجود تمام نادر کتب اور قلمی نسخوں کو کمپیوٹر میں محفوظ کر دیا جائے۔اس سلسلے میں ؛میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر محققین اور طالب علموں کی اس نادر و نایاب علمی ذخیر ے تک رسائی آسان بنا دی جائے۔

قومی زبان کی ترویج کی بات ہو رہی ہے تو اس ضمن میں آپ کو یہ بتاتے ہوئے مسرّت محسوس کرتا ہوں کہ ایوان صدر میں ذمہ داری سنبھالنے کے بعد میں نے نفاذ اردو کے سلسلے میں کئی اقدامات کیے۔ سب سے پہلا کام تو میں نے یہ کیا کہ پاکستان کے اندر قومی سطح کا کوئی موقع ہو یا بیرون ملک بین الاقوامی اداروں کی تقریبات اور کانفرنسیں،میں نے ہر موقع پر اردو میں ہی تقریر کی۔

غیر ملکی مہمانوں، حتیٰ کہ سربراہان مملکت سے ملاقاتوں اور مذاکرات میں بھی اردو میں ہی بات چیت کو ترجیح دی۔ ایوان صدر کے مختلف ہالز اور کمروں کے نام انگریزی روایت کے مطابق رکھے گئے تھے، یہ تمام پرانے نام تبدیل کر کے تحریک پاکستان اور اردو کی خدمت کرنے والے مشاہیر سے منسوب کر دیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایوانِ صدر کے مختلف شعبہ جات میں دفتری امور کی انجام دہی بھی اردو میں ہونے لگی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ سلسلہ مزید آگے بڑھے گا اور وطن عزیز کے دیگر اداروں میں بھی اسی جذبے کے ساتھ اردو کو فروغ دیا جائے گا۔آج ہم اردو کی جو بھی خدمت کرنے کے قابل ہوئے ہیں اس کاسہرا سرسید احمدخان،علامہ محمداقبال، ،قائداعظم، ،مولانا محمد علی جوہر اوربابائے اردو مولوی عبدالحق جیسے بزرگوں کے سر ہے جنھوں نے اپنی زندگیاں اس کام کے لیے وقف کر دیں۔

خوشی کے اس موقع پر آج ہم خادم اردو جمیل الدین عالی مرحوم کو بھی یاد کرتے ہیں جنھوں نے انجمن ترقی اردو کو اپنی پوری علمی روایت کے ساتھ نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اس کام کو مزید آگے بڑھایا۔میں اس موقع پر ڈاکٹر فاطمہ حسن، جناب ذوالقرنین جمیل ان کے رفقائے کار اور ایوانِ صدر کے اٴْن ساتھیوں کو بھی مبارک باد دیتا ہوں جنہوں نے نہایت خلوص، لگن اور ایمانداری کے ساتھ اس منصوبے کو خواب سے حقیقت میں بدلنے میں اپنی توانائیاں صرف کیں۔

اس موقع پر ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ذوالقرنین جمیل نے باغ اردو کی تعمیر میں تعاون کرنے پر صدر مملکت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ عمارت کی تعمیر صدر مملکت کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ تقریب کے اختتام پر معروف شاعر و ادیب جمیل الدین عالی کی سالگرہ کا کیک بھی کاٹا گیا۔