پارلیمنٹ پر لعن طعن کرنے والوں کو معافی مانگنی چاہیئے ورنہ انہیں اس بات کا جواب انتخابات میں مل جائے گا،زینب کا واقعہ بہت ہی دردناک واقعہ ہے،اس پر سیاست نہیں کرنی چاہیئے،پاکستان دہشت گردی کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی جنگ اپنے وسائل سے لڑ رہا ہے، افغانستان سمیت پوری دنیا میں ہم سے زیادہ امن کا خواہش مند کوئی نہیں،افغانستان میں امن جنگ سے نہیں،تمام افغانیوں کے مل بیٹھنے سے آئے گا،ہم تعاون کریں گے،پاکستان نے اپنا موقف واضح طور پر امریکہ تک پہنچا دیا،اس میں کسی قسم کی کوئی لچک نہیں،وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نجی ٹی چینل کو انٹرویو

جمعہ 19 جنوری 2018 23:20

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 جنوری2018ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ زینب کا واقعہ بہت ہی دردناک واقعہ ہے،اس پر سیاست نہیں کرنی چاہیئے، کل شام تک کی میری معلومات کے مطابق پنجاب پولیس اس ضمن میں اپنے تمام تر دستیاب وسائل استعمال کر رہی ہے اور ڈی این اے بیسڈ تحقیقاتی عمل جاری ہے جس میں کچھ ایسے اہم شواہد ملے ہیں جن پر مذید گرفتاریاں ہوئی ہیں اس لیے امید ہے کہ دستیاب شواہد پر بہت جلد قصور واقعے میں ملوث شخص یا لوگوں کو پکڑا لیا جائے گا اور انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔

جمعہ کو ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر روزانہ کی بنیاد پر میری وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف سے بات ہوتی ہے،جو ذاتی طور پر اس معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں، پولیس کے اعلیٰ افسران 24 گھنٹے قصور میں موجود ہیں، آئی جی پنجاب بھی دن کا زیادہ تر حصہ وہیں گزارتے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب بھی قصور کے کئی دورے کر چکے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ڈور ٹو ڈور تلاشی لی گئی ہے،سی سی ٹی وی فوٹیج مل چکی ہے اور روڈ بھی ٹریک ہو چکا ہے اس لیے مجھے قومی امید ہے کہ دستیاب شواہد کی بنیاد پر اس گھنائونے فعل کا مرتکب شخص جلد ہی پکڑا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کوئی شبہ نہیں کہ اس گھنائونے فعل کا مرتکب شخص ایک سیریل مجرم ہے کیونکہ پچھلے متاثرین کے ساتھ بھی اس شخص کا ڈی این اے میچ ہو گیا ہے،ملزم تک پہنچنے میں ریاست کے پورے وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں، ایک ویڈیو بھی موجود ہے، فوٹیج بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں مشکلات پیش آ رہی ہیں لیکن ہمیں امید ہے کہ بہت جلد ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اس معاملے پر کام کر رہی ہے، وفاق اس کام کی نگرانی کر سکتا ہے، انہیں وسائل مہیا کر سکتا ہے اور انہیں پوچھ بھی سکتا ہے کہ اس ضمن میں کیا پیشرفت ہے،یہ ہم کر بھی رہے ہیں اور ہماری طرف سے پوری کوشش کی جا رہی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ اس معاملے میں پنجاب پولیس یا پنجاب حکومت نے کوئی کوتاہی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوامی احتجاج تشدد میں بدل گیا اور وہاں حکومتی افسران خطرے میں تھے جس پر گارڈز نے فائرنگ کر دی جو شائید نہیں ہونی چاہیئے تھی، قانون نافذ کرنے والے ادارے اس وقت فائرنگ کرتے ہیں جب ان کی اپنی زندگی خطرے میں ہوتی ہے،یہ تو تحقیقات ہی بتائیں گی کہ انہیں یہ فائرنگ کرنی چاہیئے تھی کہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ قصور واقعے کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے پوری کوشش کی جا رہی ہے اور تمام تر وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں، بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ سیریل کلرز کئی کئی سال تک نہیں پکڑے جاتے لیکن یہاں ہماری یہ پوری کوشش ہے کہ بچوں سے زیادتی کرنے والے ملزمان کو جلد سے جلد پکڑا جائے اور اس کے لیے ہم پرعزم بھی ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹ کا مسئلہ آج کا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے لیکن بدقسمتی سے وائٹ کالر کرائم اور سائبر کرائم کو اسٹیبلش کرنا پوری دنیا میں بہت مشکل ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے ان جرائم کے خلاف کارروائی کرنے میں ہمارے ملکی قوانین میں بھی کمی موجود ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے علم کے مطابق تو طاہرالقادری کینیڈا کے ایک شہری ہیں ان کے پاس پاکستانی شہریت تو ہے ہی نہیں، طاہرالقادری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق کوئی بات نہیں۔

انہوں نے کہا کہ لاہور یا اسلام آباد میں اسٹیج پر طاہرالقادری اکیلے نہیں تھے بلکہ بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی ان کے ساتھ موجود تھی اور اس اسٹیج سے پارلیمنٹ سے متعلق بھی متنازع زبان استعمال کی گئی جس کا پارلیمنٹ نے نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے مذید کہا کہ ہماری عدالت نے طاہرالقادری کو جلسہ کرنے کی اجازت دی تھی، ازخود نوٹس بھی ہوتا ہے اس لیے پارلیمنٹ کے خلاف متنازع بیان پر بھی از خود نوٹس ہو سکتا ہے، ہم طاہرالقادری کے حکومت گرانے سے متعلق بیان کا نوٹس لیں گے۔

انہوں نے کہاکہ طاہرالقادری جو کچھ کر رہے ہیں وہ نظر آ رہا ہے وہ سڑکوں پر ہیں لیکن اگر کوئی پارلیمنٹ کا رکن ہو تو اسے کوئی بھی بات سوچ سمجھ کر کرنی چاہیئے اور اگر کوئی رکن پارلیمنٹ ایوان پر لعن طعن کرے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خود پر لعن طعن کر رہا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ پر لعن طعن کرنے والوں کو معافی مانگنی چاہیئے ورنہ انہیں اس بات کا جواب انتخابات میں مل جائے گا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے دن رات کوشاں ہے اور ہم نے جتنے کام کیے ہیں وہ گزشتہ 65 سالوں میں بھی نہیں ہوئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جو کچھ ہوا اس کے محرکات کا پتہ کرنے کوئٹہ گیا تھا، میں یہ بتانے گیا تھا کہ سیاست میں اس طرح کے محرکات بہتر نہیں ہوتے کیونکہ اس عمل سے نہ تو بلوچستان کی سیاست بہتر ہوئی ہے اور نہ ہی بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی عزت میں کوئی اضافہ ہوا ہے، جس پر ارکان صوبائی اسمبلی نے مجھے بتایا کہ ہمیں کالز آ رہی ہیں اور ہم پر بڑا دبائو ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری چند ہفتے پہلے ہی پارلیمانی پارٹی سے ملاقات ہوئی تھی،یہ ہماری جماعت کا معاملہ تھا اور ہمارے اراکین نے اپنے ہی وزیراعلیٰ پر عدم اعتماد کااظہار کیا لیکن اختلافات تو ہر گھر اور جماعت میں ہوتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار اور پرویز رشید نے جو بیانات دئیے جو میڈیا کے ذریعے اختلافات کی صورت میں سامنے آیا لیکن یہ معاملہ اب ختم ہو گیا ہے اور اگر نہیں بھی ہوا تو ہمارا کام ہے ان کی صلح صفائی کرانا اور یہ سیاسی قیادت کا فرض بھی ہے۔

ایسی چیزوں سے سیاست کو فائدہ نہیں ہوتا بلکہ ابہام پیدا ہوتا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اپنا ایک موقف بیان کیا ہے جس پر پاکستان نے ہر سطح پر اپنا بڑا واضح موقف امریکہ تک پہنچا دیا ہے،ہمارے اس موقف میں کسی قسم کی کوئی لچک نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی دورائے ہے، ہم نے امریکہ کو اپنا موقف بڑا واضح بیان کیا ہے جو یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی جنگ اپنے وسائل سے لڑ رہا ہے، افغانستان سمیت پوری دنیا میں امن کا خواہش مند پاکستان سے زیادہ کوئی اور نہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پہلے بھی پاکستان کا تعاون تھا اور آج بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آج بھی 30 لاکھ سے زائد افغانی پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہے ہیں،ہماری نظر میں افغانستان کے امن کا حل جنگ میں نہیں بلکہ تمام افغانیوں کے مل بیٹھنے میں ہے تاکہ مسئلے کو حل کیا جا سکے اور اس ضمن میں ہم انہیں جتنی بھی سہولت فراہم کر سکتے ہیں ضرور کریں گے،یہی پاکستان کا موقف بھی ہے جو ہم نے پوری دنیا کے ساتھ ساتھ امریکہ کو بھی بتایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے جو بھی تعاون ہو گا ہم ضرور کریں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ ایک ٹویٹ کوئی پالیسی ہو سکتا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انتخابات قریب ہیں، اس لیے ہر سیاسی جماعت اپنی جگہ بنانے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حلیف جماعتیں آج بھی ہمارے ساتھ ہیں اور ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ ہم نے اپنی کاکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں جانا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاسی بھونچال صرف خبروں میں ہی آتا ہے، ملک میں ایسے معاملات نہیں اس لیے عام انتخابات رواں سال جولائی میں اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ محمد شہباز شریف ہماری جماعت کے ایک سینیئر رکن ہیں اور ایک صوبے کے وزیراعلیٰ بھی ہیں جنہوں نے اپنے صوبے کے عوام کے لیے بہت اچھا ڈلیور کیا ہے جس سے پارٹی کی ساکھ بہتر ہوئی ہے لیکن وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے فیصلے پارٹی کے فیصلے ہوتے ہیں اور یہ فیصلے انتخابات کے بعد جب پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو اس وقت ہوتے ہیں۔