پارلیمنٹ پر لعن طن کرنے والے معافی مانگیں ورنہ انکوانتخابا ت میں جواب مل جائیگا ، وزیراعظم

آئینی اداروں کو گالم گلوچ سے جمہوریت مستحکم نہیں ہوتی، دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے کینیڈین شہری کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ کیلئے نازیبا زبان استعمال کی ، پارلیمنٹ نے اس کا نوٹس لیا ،ممبر کا پارلیمنٹ پر لعن طعن کرنا خو د پر لعنت بھیجنے کے مترادف ہے ، ، آئندہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے ، وزارت عظمیٰ کے اگلے امیدوار کا فیصلہ انتخابات میں جیت کے بعد کیا جاتا ہے،ہماری حکومت نے اتنے کام کئے کہ گزشتہ 65سال میں نہیں ہوئے، افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں سیاسی ہے ، امریکہ کو حقیقت پر مبنی پالیسی اختیار کرنا ہو گی ،پاکستان نے اپنا واضح موقف امریکی انتظامیہ کو ہر سطح پر پہنچا دیا ، کوئی ٹویٹ کسی ملک کی پالیسی نہیں ہو سکتا ،زینب قتل کیس کی تحقیقات جاری ، کچھ مشکلات ہیں، بچوں کیساتھ زیادتی کے ملزموں کوجلدگرفتارکریں گے، طاہر القادری کے حکومت گرانے سے متعلق بیان کا نوٹس لیں گے ،احتجاج کے دوران پولیس کوفائرنگ نہیں کرنی چاہیے تھی، تحقیقات سے پتہ چلے گاپولیس نے فائرنگ کیوں کی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نجی ٹی وی کو انٹرویو

جمعہ 19 جنوری 2018 22:22

پارلیمنٹ پر لعن طن کرنے والے معافی مانگیں ورنہ انکوانتخابا ت میں جواب ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 جنوری2018ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پارلیمنٹ پر لعن طن کرنے والے سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ لعن طعن کرنے والوں نے معافی نہ مانگی تو انہیں آئندہ عام انتخابات میں اس کا جواب مل جائے گا ، آئینی اداروں کو گالم گلوچ سے جمہوریت مستحکم نہیں ہوتی، کوئی پارلیمنٹ کا ممبر اگر پارلیمنٹ پر لعن طعن کرے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خود پر لعن طعن کر رہا ہے دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے کینیڈین شہری کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ کیلئے نازیبا الفاظ استعمال کئے ،وہاں پر پارلیمنٹ کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی جس کا پارلیمنٹ نے نوٹس لیا ، آئندہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے ، اگلا وزیراعظم کون ہو گا، اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا، وزارت عظمیٰ کے امیدوار کا فیصلہ انتخابات میں جیت کے بعد کیا جاتا ہے،ہماری حکومت نے اتنے کام کئے کہ گزشتہ 65سال میں نہیں ہوئے، افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں سیاسی ہے اور پاکستان امن عمل کا سب سے بڑا حامی ہے،،حالیہ امریکی پالیسی حقائق پر مبنی نہیں ہے،امریکہ کو حقیقت پر مبنی پالیسی اختیار کرنا ہو گی ،پاکستان نے اپنا واضح موقف امریکی انتظامیہ کو ہر سطح پر پہنچا دیا ،میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ٹویٹ کسی ملک کی پالیسی ہو سکتا ہے،زینب قتل کیس کی تحقیقات جاری ہیں ، سی سی ٹی وی ویڈیو موجود ہے پھر بھی کچھ مشکلات ہیں، بچوں کیساتھ زیادتی کے ملزموں کوجلدگرفتارکریں گے، طاہر القادری کے حکومت گرانے سے متعلق بیان کا نوٹس لیں گے،حکومت طاہرالقادری کانام ای سی ایل میں نہیں ڈال رہی انہوںنے پارلیمنٹ کیخلاف سخت الفاظ استعمال کئے،احتجاج کے دوران پولیس کوفائرنگ نہیں کرنی چاہیے تھی، تحقیقات سے پتاچلے گاپولیس نے فائرنگ کیوں کی ۔

(جاری ہے)

وہ جمعہ کو نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ زینب قتل کیس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، قصور میں پولیس کے اعلیٰ افسران روز موجود ہوتے ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب خود بھی معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں، اس معاملے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، امید ہے کہ دستیاب شواہد پر قصور واقعے کا ملزم پکڑا جائے گا، سی سی ٹی وی ویڈیو موجود ہے پھر بھی کچھ مشکلات ہیں، ہماری پوری کوشش ہے کہ بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو جلد گرفتار کریں۔

انہوںنے کہا کہ قصور میں احتجاج کے دوران کی گئی فائرنگ پر بھی تحقیقات ہو رہی ہیں، تحقیقات سے پتہ چلے گا کہ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کیوں کی،ایگزیکٹ سکینڈل سے متعلق پوری دنیا میں خبریں چھپ رہی ہیں، وائٹ کالر کرائمز اور سائر کرائمز کو کرائم اسٹیبلش کرنا دنیا بھر میں مشکل ہوتا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ طاہر القادری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی ہے، میرے علم کے مطابق طاہر القادری کینیڈا کی شہریت رکھتے ہیں، وہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں، یہاں پر اظہار رائے کی آزادی تھی اور عدالت نے ان کو احتجاج کی اجازت دے رکھی تھی، اسٹیج پر طاہر القادری اکیلے نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ بڑی سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ بھی موجود تھی، دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے کینیڈین شہری کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ کیلئے نازیبا الفاظ استعمال کئے، آئینی اداروں کو گالم گلوچ سے جمہوریت مستحکم نہیں ہوتی،وہاں پر پارلیمنٹ کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی جس کا پارلیمنٹ نے نوٹس لیا ہے، یہاں از خود نوٹس بھی ہوتے ہیں، پارلیمنٹ کے خلاف بیان پر بھی از خود نوٹس ہو سکتا ہے، ہم طاہر القادری کے حکومت گرانے سے متعلق بیان کا نوٹس لیں گے، یہ مسئلہ میرے ذہن میں تھا کہ کوئی غیر ملکی شہری حکومت مخالف بیانات دے سکتا ہے یا نہیں، طاہر القادری جو کچھ کر رہے ہیں وہ نظر آ رہا ہے وہ سڑکوں پر ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پارلیمنٹ کے ممبرز نے جلسے میں پارلیمنٹ کے خلاف زبان استعمال کی، کوئی پارلیمنٹ کا ممبر ہو تو اس کو سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے،کوئی غیر ملکی پاکستان میں آ کر اس طرح کے بیانات نہیں دے سکتا،کوئی پارلیمنٹ کا ممبر اگر پارلیمنٹ پر لعن طعن کرے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خود پر لعن طعن کر رہا ہے، لعن طعن کرنے والوں کو معافی مانگنی چاہیے ورنہ انہیں انتخابات میں جواب مل جائے گا کون ملک کا خیر خواہ ہے عوام سب سمجھتے اور جانتے ہیں، عوام آئندہ الیکشن میں کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیں گے، موجودہ حکومت جو کام کر رہی ہے تاریخ میں مثال نہیں ملتی،ہماری حکومت نے اتنے کام کئے کہ گزشتہ 65سال میں نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں سیاسی ہے،افغانستان امن عمل کا حامی پاکستان سے زیادہ کوئی ملک نہیں ہے،پاکستان نے اپنا واضح موقف امریکی انتظامیہ کو ہر سطح پر پہنچا دیا ہے،حالیہ امریکی پالیسی حقائق پر مبنی نہیں ہے،امریکہ کو حقیقت پر مبنی پالیسی اختیار کرنا ہو گی،میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ٹویٹ کسی ملک کی پالیسی ہو سکتا ہے،دہشت گردی کے خلاف ہمارا تعاون پہلے بھی تھا اب بھی ہے،افغانستان میں امن کے قیام کیلئے جو بھی تعاون ہو سکے گا کریں گے،ہم دہشت گردی کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی جنگ لڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا موقف بڑی وضاحت سے امریکہ تک پہنچا دیا ہے، ہم سے زیادہ دنیا میں امن کا خواہشمند اور کوئی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حلیف جماعتیں ہمارے ساتھ ہیں،آئندہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے، ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جو کچھ ہوا اس کے محرکات معلوم کرنے کوئٹہ گیا،مجھے ارکان نے بتایا کہ ہم پر بڑا دبائو ہے، کالز آرہی ہیں،ہماری جماعت کا معاملہ تھا کہ ہمارے ارکان نے اپنے وزیراعلیٰ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا،چند ہفتے پہلے پوری پارلیمانی پارٹی سے ملاقات ہوگئی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ چوہدری نثاراورپرویز رشید نے بیانات دیئے جو اختلاف کی صورت میں سامنے آیا،جن چیزوں سے ابہام پیدا ہو اس سے سیاست کو فائدہ نہیں پہنچتا،معاملہ ختم ہو گیا ہے اگر نہیں ہوا ہے تو ہمارا کام ہے صلح صفائی کرانا،اختلافات ہر گھر اور ہر جماعت میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات قریب ہیں ہر سیاسی جماعت اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے،ہمارا موقف واضح ہے کہ ہم نے اپنی کارکردگی پر انتخابات میں جانا ہے،سیاسی بھونچال صرف خبروں میں آتا ہے،ملک میں ایسے معاملات نہیں، الیکشن جولائی سے پہلے نہیں ہوں گے۔

شہباز شریف کو اگلے الیکشن میں بطور وزیراعظم نامزدگی کے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئندہ الیکشن میں کون وزیراعظم ہو گا، اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا، وزارت عظمیٰ کے امیدوار کا فیصلہ انتخابات میں جیت کے بعد کیا جاتا ہے۔