بچوں پر ظلم اور زیادتی کو روکنے کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا گیا، فرحت اللہ بابر

جمعہ 19 جنوری 2018 21:02

بچوں پر ظلم اور زیادتی کو روکنے کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا گیا، فرحت ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 جنوری2018ء)پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ بچوں کے حقوق پر نیشنل کمیشن قائم کرنے کے لئے ایکٹ تو پاس ہوگیا ہے لیکن اب تک کمیشن بنایا نہیں گیااور بچوں پر ظلم اور زیادتی کو روکنے کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ وہ جمعہ کو وفاقی محتسب اسلام آباد کے دفتر میں بچوں کے تحفظ کے متعلق ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے جس میں پارلیمنٹیرینز، خواتین کے نیشنل کمیشن کی چیئرپرسن، ایچ آرسی پی، یونیسف، این سی ایچ آر اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔

اس سیمینار سے سابق وزیر قانون ایس ایم ظفر نے بھی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکت کی۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بچے اغوا ہو رہے ہیں، جنسی زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں، بچپن میں شادی اور سوارا کی رسموں کا شکار ہو رہے ہیں، گھریلو ملازمین کے طور پر ان کا استحصال کیا جا رہا ہے، یتیم بچے لاوارث پھر رہے ہیں، کسی جرم کے بغیر جیلوں میں ہیں جن میں کچھ سزائے موت کا انتظا کر رہے ہیں، افغانستان مہاجرین کے بچے بغیر کسی ریاست کی سرپرستی کے جیلوں میں ہیں، ملک میں اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں، تناعات کے جھگڑوںمیں انہیں نظرانداز کیا جا رہا ہے اور کالاش کی کمیونٹی میں بھی بچے نشانہ بن رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ان بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور استحصال کے متعلق کوئی باقاعدہ اعدادوشمار موجود نہیں اور اتنی خراب صورتحال ہونے کے باوجود بچوں پر ہونے والی زیادتیوں کے خاتمے کے لئے کوئی منصوبہ موجود نہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ مل کر یہ اعدادوشمار جمع کئے جائیں تاکہ بچوں کے تحفظ کے لئے منصوبہ بندی کی جا سکے۔

انسانی حقوق پر عالمی نظرثانی کے دوران پاکستان نے اقوام متحدہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس بارے میں ایک دستاویز پیش کرے گا لیکن یہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کچھ مثبت اقدامات کا ذکر کیا جیسا کہ بچوں عریاں فلمیں بنانے کو جرم قرار دینا اور بچوں کو بلوغت تک مکم مجرم قرار نہ دینا اچھے اقدامات ہیں لیکن انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سینیٹ کی جانب سے یتیموں اور گھریلو ملازمین کے لئے جو بل پاس کئے گئے ہیں انہیں اب تک قومی اسمبلی سے پاس نہیں کرایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کو جنگ میں استعمال کرنے، مدرسہ اصلاحات اور عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے طلبا کی بھرتی کے بارے اقوام متحدہ کی کمیٹی کی سفارشات اور بچوں کے حقوق کے کنونشن پر دستخط کرنا وہ کام ہیں جن پر ابھی تک عملدرآمد نہیں کرایا گیا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے تجویز دی کہ 2018ء کو بچوں کے حقوق کا سال قرار دیا دیا جائے اور خواتین کے نیشنل کمیشن کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ اس بارے سال بھر کی تقریبات کا اہتمام کریں۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کو زیادتی اور تشدد کا نشاہ بنانے سے قبل انہیں غائب کر دیا جاتا ہے۔ انہیں غائب کر دیا جاتا ہے کہ جب تک شہری غائب ہوتے رہیں گے اور اس جرم میں ملوث افراد انصاف کے کٹہرے میں نہیں لائے جائیں گے اس وقت تک بچے اسی طرح ناانصافی اور زیادتیوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ اگر ہم نے بچوں کو زیادتی اور تشدد سے بچانا ہے تو ہمیں ملک میں زبردستی غائب کئے جانے کے عمل کو روکنا ہوگا اور اس عمل میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا اور پاکستان کے کریمنل جسٹس نظام میں اصلاحات کرنی ہوں گی۔